خواب لندن کے

375

آج لندن کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہیں کہیں وہ سڑک، وہ گلی، وہ فٹ پاتھ ہوگا جہاں میرے وطن کی دو عظیم شخصیات نے آج سے لگ بھگ اسی نوے سال قبل چہل قدمی کے دوران بدعہد، بددیانت اور غلام ذہن حکمرانوں کے چنگل میں پھنسی آج کی بدقسمت، اپنے غیر یقینی مستقبل سے بے فکر، بد دیانت قوم کے لیے ایک ’’آزاد اسلامی جمہوری ملک‘‘ کے خواب کی تعبیر پر مکالمہ کیا ہوگا۔ انگریزوں کے ملک کے دارالحکومت میں برصغیر کے مسلمانوں کو انگریزوں سے آزادی دلانے کے منصوبے کی تفصیلات طے کی ہوں گی۔ مصور پاکستان نے جو پاکستان خواب میں دیکھا تھا کیا وہ ایسا ہی ہوگا جیسا وہ بننے کے بعد سے آج تک نظر آ رہا ہے؟ کیا اقبال نے بانی پاکستان سے اس خواب کی جزیات پر بات کی ہوگی۔ کیا ان جزیات میں اقتدار اور مال و زر کے بھوکے، دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنے والے، ملکوں ملکوں جائدادیں بنانے والے جرنیل، عدل وانصاف کے منہ پر طمانچے مارنے والے بے حس جج، لفافہ صحافی کی شہرت رکھنے والے، پلاٹوں، عمروں، زیارتوں اور ٹوئرز کے عوض قلم فروشی کرنے والے صحافی، جمہوریت کے نام پر قوم پر مسلط قریشی، مخدوم، شریف، زرداری، نیازی، بھٹو اور وٹو چٹھے بھی زیربحث آئے ہوں گے۔ کیا شرابی کبابی کی شہرت رکھنے والے جرنیلوں اور ملکی اداروں کو تباہ کرنے والے فوجی اور نام نہاد جمہوری موروثی سیاست ڈانوں کا ذکر بھی ہوا ہوگا۔ کیا قوم کو لسانیت، علاقائیت اور فرقہ واریت کی دلدلوں میں دھنسانے والے شیطان صفت لیڈروں کا ذکر بھی ہوا ہوگا۔

پون صدی کے مکروہ سیاسی کھیل سے میرے خوب صورت ملک کی جو مکروہ شکل بنادی گئی ہے کیا اقبال اور جناح نے اس کا تصور بھی کیا ہوگا۔ وہ بدترین کثیر جہتی غلامی جو ہمارے جرنیلوں، سیاست ڈانوں اور ماہرین معیشت نے ہم پر مسلط کی ہے اس پر بھی اقبال اور جناح نے کچھ سوچا ہوگا۔ کیا اس خواب میں اقبال کو ہر اخلاقی اصول کو پاؤں تلے روندنے والے زرداری، تضادات کے بے تاج بادشاہ نیازی،

بھتوں اور بوریوں والے الطاف، غیبی امداد پر پلنے والے فضل الرحمان، دنیا کو بے وقوف سمجھنے والے شعبدہ باز مداری شہباز کے ہیولے بھی نظر آئے ہوں گے۔ ایوب، یحییٰ، ضیاء اور پرویز مشرف جیسے بدمست فوجی آمروں کی صورتیں بھی دکھائی دی ہوں گی۔ یہ وہی شہر ہے جس میں میرے ملک کی مقروض معیشت پر پلنے اور عیاشیاں کرنے والے بیرحم عظیم رہزنوں نے جائدادیں بنائی ہوئی ہیں۔ یہیں اسی شہر میں ان کے بچے سکون سے عیاشی کر رہے ہیں۔ یہ مہنگا شہر غریب ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کا شفاء خانہ اور اس کے بچوں کا مسکن ہے۔ اسی لندن میں میرے اسلامی ٹچ اور ریاست مدینہ والے نیازی کے بچوں کا دولت کدہ یا غریب خانہ ہے۔ یہیں کہیں میرے غریب وطن کے کسی سیاست ڈان کا سائے بان سرے محل ہے۔ یہاں بہت سارے ارب پتی ’’روحانی‘‘ پیشواؤں کے آستانے بھی ہیں۔

یہ لندن شہر اور یہ ملک برطانیہ، ملک کے مستقبل سے مایوس ذہین اور محنتی نوجوانوں کی امیدوں کا بھی مرکز ہے۔ بدقسمتی ہے کہ اقبال نے جس آزاد وطن کا خواب دیکھا تھا اس وطن کے مترفین آج انگریزوں کے لندن میں عیاشیاں کرتے ہیں اور اس وطن کے نوجوان یہاں اپنے سہانے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہاں کی جامعات میں بڑی تعداد میں پاکستانی بچے اپنے مستقبل کے خواب سجائے گھر اور گھر والوں سے دوری کا درد سہہ رہے ہیں۔ پاکستان کے بہترین ذہن اپنے ملک میں بے قدری کی وجہ سے یہاں کے اداروں میں بہتر روزگار کی خاطر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا اور بانی پاکستان کے ساتھ پاکستان کے ناک نقشے بارے مکالمہ کیا۔ قوم بحیثیت مجموعی پون صدی سے کسی اچھے دن کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اس وطن کے باصلاحیت نوجوان اپنے سہانے مستقبل کے خوابوں کی تعبیر لندن میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ اقبال نے مسلمانان برصغیر کے لیے جس آزاد وطن کا سہانا خواب دیکھا تھا، اس کو پون صدی سے مسلط اخلاقی، ایمانی اور انسانی اقدار سے عاری مترف حکمرانوں نے ایک ڈراؤنا خواب بنا دیا ہے۔ جب تک قوم کے شعور کی آنکھ نہیں کھلتی میرا وطن ڈراؤنا خواب ہی بنا رہے گا۔