بھارتی انتخابات کا نتیجہ بی جے پی کے زوال کا نکتہ آغاز ہے

272

کراچی ( رپورٹ /محمد علی فاروق ) بھارتی انتخابات کا نتیجہ بی جے پی کے زوال کانکتہ آغاز ہے‘دنیا میںطاقت کاتوازن تیزی سے تبدیل ہورہا ہے‘ نریندر مودی‘ حسینہ واجد اور پاکستان کے حکمراںتنزلی کا شکار ہیں‘مصنوعی سہارے کسی بھی وقت گرجائیں گے‘لوک سبھامیں247سیٹیں لینا بڑی کامیابی ہے‘اپنے گڑھ میں واضح اکثریت حاصل کی۔ ان خیالا ت کا اظہار معروف کالم نگار جماعت اسلامی کے رہنما سید وجیہہ حسن ، معروف تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر، معروف کالم نگار فہیم اختر اورمعروف تجزیہ کار ڈاکٹر سید نوازالہدیٰ نے جسارت سے گفتگو کر تے ہوئے کیا ۔معروف کالم نگار جماعت اسلامی کے رہنما سید وجیہہ حسن نے کہا کہ دنیا میں طاقت کا توازن بڑی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے امریکا اپنی با لا دستی کو قائم رکھنے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بہت بڑی جنگ میں مصروف ہے لیکن یہ لڑائی اس قدر غیر اخلاقی اور معیار سے گر ی ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ کھڑے
ہونے والا ہر شخص اور گروہ تنزلی کا شکار ہے ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی استعمار کے ساتھ جو لوگ بھی کھڑے ہیں وہ نریندر مودی ، حسینہ واجد اور پاکستانی حکمران طبقہ ہی کیوں نہ ہو یہ سب بظاہر تو حکمران ہیں ان کے پاس طاقت اور قوت بھی ہے مگر یہ سب تنزلی کا شکار ہیں اور مصنوعی سہاروں پر کھڑ ے ہیں ان کے یہ مصنوعی سہارے کسی بھی وقت دھڑام سے گر جائیں گے ، یہی حال مودی کا بھی ہے اس حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ جو رویہ امریکا نے غزہ کے معاملے میں رکھا ہوا ہے اور اس کے ساتھ جتنے لوگ اس معاملے میں شامل ہیں وہ دنیا میں بھی بے نقاب ہوئے ہیں اور اپنی آہستہ آہستہ اپنی طاقت کھو رہے ہیں ،غزا کی جدوجہد نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ مظلوم کی جودجہد ظالموں کو غیر مقبول بنا دیتی ہے ہوسکتا ہے کہ وہ بہت طاقتور ہوں مگر ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں نفرتیں ہی پید ا ہورہی ہیں مودی کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کا ہندو توا کا ایجنڈا غیر مقبول ہوگیا ہے انڈیا میں اس کے خلاف ایک مزاحمت موجود ہے اور بڑے پیمانے پر اس کے خلاف تحریکیں موجود ہیں جبکہ مودی نے اپنے ہندو توا ایجنڈے کے تحت اپنے آپ کو قائم رکھنے کو جو کوشش کی وہ بظاہر انتخابات میں بے نقاب ہوچکی ہے اور اب عوام کو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے لگتا ہے کہ امریکا کے ساتھ کھڑے افراد نہ تو اپنی روش بدلیں گے اور نہ امریکا اپنی روش بدلے گا ، اور اپنے ایجنڈے کو اگے بڑھانے کے لیے جدوجہد کو مزید تیز کرے گا جس کی وجہ سے وہ تمام قوتیں جو امریکا کے ساتھ ہوں گی وہ دنیامیں بھی اور اپنے اپنے ممالک میں بھی غیر مقبول ہو جائیں گی اور مصلحتوں کا نشانہ بنے گی ۔ معروف تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ بی جے پی کی بھارتی انتخابات میں شکست نہیں ہو ئی ہے شکست کا سوال تو اس وقت ہوتا جب ان کو 100سیٹیں ملتیںجیسے کانگریس کو ملی ہیں کانگریس کو تو شکست ہوچکی ہے 247 سیٹیں لینا لوگ سبھا میں یہ ایک بڑی کامیابی ہے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ2019 میںبی جے پی کی فتح بہت واضح تھی ، 330نشستیں جیتی تھیں اور دوتہائی اکثریت کی بنا پر حکومت بنا ئی تھی اس بار انتخابات کو دو تہائی اکثریت نہیں ملی ، اس تنا ظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کو شکست ہوئی ہے اور بی جے پی دو تہائی اکثر یت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے انتخابا ت میں پہلے ہی لگ رہا تھا کہ نریندری مودی پہلے سے کم نشستیں حاصل کریں گے مودی کا سوشل میڈیا ، بیروکریسی ، عدلیہ سمیت سیکورٹی ایجنسی و دیگر اداروں میں مداخلت بہت زیادہ رہی ہے ، راول گاندھی نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ انتخابات میں اداروں اور مودی کے درمیان معاملا ت طے ہوچکے ہیں اس کے باوجود مودی کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہوسکی ظاہر ہے کہ بی جے پی کا گڑھ اتر پر دیش ، مہاراشٹر اور دیگر علاقے وہاں جیت ہوئی ہے ، بحرحال ان کی جیت ہوئی ہے ،غیرمتوقع نتائج کی وجہ سے مودی کو 15 جماعتی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(این ڈی اے) کی مدد لینا پڑی کیونکہ بی جے پی اس مرتبہ تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ان کی مدد سے مودی نے حکومت بنانے کے لیے درکار نمبر پورے کر کے لگاتار تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کاحلف اٹھا لیا ہے ۔ معروف کالم نگار فہیم اختر نے کہا کہ بی جے پی کی شکست سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ بی جے پی نے گزشتہ 10سال حکومت کے دوران جوباتیں کیں وہ اب عوام کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں یہ بی جے پی کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے نریندری مودی کئی برسوں سے کہتے رہے اور دعوے کرتے رہے کہ میرا سینہ چوڑا ہے وہ تمام دعوے دھڑ ام سے گر گئے ہیں ، ممکن ہے کہ حکومت کے بنے کے بعد کچھ ہی دنوں میں معاملات الجھ جائیں اور مودی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے ، کانگریس اتحاد مزید مضبوط ہوجائے گا ،میں اس سے قبل بھی اپنے کالموں میں یہ لکھ چکا ہو ں کہ مودی بوکھلا ئے ہوئے ہیں نتائج جو نظر آرہے ہیں ہیں ایسا ہو گا نہیں ،کہیں نہ کہیں بی جے پی کو بڑا دھچکا لگا ہے اور آنے والے دن مزید برے آئیں گے خاص اتر پردیش جو ان کا گڑھ تھا وہاں مندر کا مسئلہ بہت اہم تھا ،عوام نے ان کی تمام باتوں کو رد کر دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا زوال شروع ہوچکا ہے آنے والے دن ان کے لیے بہت مشکل ہوں گے کیونکہ یہ اتحاد کے ساتھ حکومت بنا ئیں گے جس کی وجہ سے اپنی من مانی نہیں کر پائیں گے بے جے پی کے لیے بری خبر یہ ہے کہ اب عوام بھی سمجھ چکی ہے کہ بی جے پی کی لیڈر شپ مذہبی فرقہ پرستی ، نفرتیں پھیلا نے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے بس جملے بازی کرتے ہیں اور نفرتیں پھیلا تے ہیں ۔ معروف تجزیہ کار ڈاکٹر سید نوازالہدیٰ نے کہا کہ بھارتی انتخابات کے حوالے سے جسارت کے گزشتہ سوال میں نظر آنے والے حقائق میں واضح کیا تھا کہ نریندری مودی کی کامیابی والی مضبوط پوزیشن، اپوزیشن اتحاد کے درمیان بھروسے کے فقدان کے دور ہونے کی صورت میں کمزور پڑسکتی ہے۔ جاری کردہ انتخابی نتائج کے مطابق بھارتی جنتا پارٹی(بے جے پی) نے لوک سبھا کی کل 543 نشستوں میں سے 240 نشستیں حاصل کرکے تمام پارٹیوں میں سبقت تو حاصل کرلی مگر اپنے جنونی مقصد کو حاصل کرنے کے حوالے سے پاش پاش ہوگئی ہے جبکہ اسکے انتخابی اتحاد کی کامیاب نشستوں کی تعداد 293 ہونے کی وجہ سے حکومت سازی میں اسے سادہ اکثریت حاصل ہے اس لئے مودی تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔400 پار کا نعرہ لگانے والی پارٹی کا پچھلے انتخابات کے مقابلے میں 63 نشستیں کم حاصل کرنا اسکے جنونی ہندو مذہبی سیاست کے خاتمے کی جانب ٹھراو کا پیدا ہونا ہے۔ جنوبی ہندوستان کے لوگوں نے مودی ذہنیت کو رد کرکے بھارتی عوام میں شمالی اور جنوبی سوچ کے فرق کو برقرار رکھا ہے۔عمومی اعتبار سے مذہب کے نام پر دو مرتبہ وزیراعظم بننے والے نریندری مودی کی جماعت کا رام مندر سیاست (ایودھیا) میں شکست کھانا بھارتی عوام کی جانب سے اشارہ ہے کہ صرف مذہبی جنونیت سے کام نہیں چلے گا بلکہ اسکے ساتھ حکومتی کارکردگی کا بہتر ہونا بھی ضروری ہے۔ہندوستانی سیاست میں طاقتور میڈیا کے ذریعے اوتار بنے مودی کی شکست ایک سوالیہ نشان ہے کہ اتنے زبردست مارکیٹنگ کے باوجود مطلوبہ نتائج کے نہیں ملنے پر الیکٹرونک ووٹنگ میں کسی گھس بیٹھیے نے اپنی خواہش تو پوری نہیں کی؟ تمام انتخابی پنڈت بس مودی مودی کا نعرہ لگارہے تھے جبکہ مودی سیاست سوائے اقلیتوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے کے، اپنے ووٹرز کو کسی قسم کا عوامی ریلیف دینے سے قاصر رہی تھی۔ مودی کی شکست نے خطے کے سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو بھی ہوشیار کردیا ہے کہ جارحانہ موقف سے انتخابات میں وقتی فتح تو مل سکتی ہے مگر اس راگ سے عوام کے مسائل کا دیرپا حل نہیں ملتا جسکی وجہ سے مستقبل کی سیاست زمین بوس ہوسکتی ہے۔مودی حکومت بنانے کے باوجود پارلیمنٹ میں اپنی فرعونیت اور مسلم دشمنی کے اظہار کے لئے انہیں وہ طاقت حاصل نہیں ہوسکے گی جو کہ انکی وجہ شہرت ہے۔