مُلک سے نقل مکانی

258

سوال: ملکی حالات سے مایوس ہو کر ہماری نوجوان نسل ملک سے نقل مکانی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ:
1۔کیا امریکا اور مغربی ممالک دارالکفر کی تعریف میں آتے ہیں؟
2۔ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ان ممالک کی طرف ہجرت دینی نقطۂ نظر سے کیسا فعل ہے؟
3۔اپنے اور اپنی اولاد کے دین و ایمان کو بچانے کی خاطر ان ممالک کی طرف ہجرت کی جائے تو کیسا ہے؟ کیوں کہ وہاں کم از کم آپ کو اپنے حقوق تو بغیر کسی رشوت اور سفارش کے مل جاتے ہیں‘ جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے؟
4۔جب حالات گھمبیر ہو جائیں تو ہجرت سنت نبوی ہے۔ کیا مذکورہ حالات میں ہجرت ضروری ہے؟

جواب: آپ نے اپنے سوال میں ایک بہت اہم زمینی حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ بلاشبہ نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سے مسلم ممالک میں ناہموار حالات کے نتیجے میں بہت سے نوجوان اور پیشہ ور افراد نقل مکانی کر کے یورپ و امریکا منتقل ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا اسے دارالکفر کی طرف ہجرت کہا جائے گا؟ دارالکفر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کفر کا نظام کارفرما ہو اور اہل اسلام کے لیے اپنے اصولوں پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ چنانچہ سورہ النساء آیت 97 میں ان اہل ایمان کا ذکر کیا گیا جو نظام کفر میں مستضعفین فی الارض بنا دیے گئے۔ ایسے افراد سے موت کے وقت فرشتہ یہ سوال کرتا ہے کہ اگر تم اس زمین میں بے بس بنا دیے گئے تھے تو کیا جہاں اللہ کی زمین پائی جاتی ہے وہ تمھارے لیے تنگ ہو گئی تھی؟ کیا کہیں ہجرت کر کے کسی ایسے مقام پر نہیں جا سکتے تھے جہاں دین پر عمل کر سکو؟ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی؟ گویا دارالکفر میں دب کر‘ مفلوج اور بے بس ہو کر رہنا اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔ ایسی حالت میں ان پر ہجرت فرض ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی نام نہاد مسلم ملک میں دستور تو یہ کہتا ہے کہ وہ اسلامی ملک ہے لیکن برسراقتدار طبقہ اور نظام حکومت جاہلی ہو‘ جب کہ ویسا ہی جاہلی نظام کسی غیرمسلم ملک میں بھی ہو لیکن غیر مسلم ملک میں دعوت اسلامی کے امکانات زیادہ روشن ہوں‘ تقریر و تحریر اور اجتماع کی پوری آزادی ہو‘ لباس‘ طعام اور بودوباش پر کوئی پابندی نہ ہو‘ جب کہ خود نام نہاد مسلم ملک میں اسلام دوست اور تحریکات اسلامی سے وابستہ افراد پر زمین تنگ کر دی گئی ہو‘ تو ہر عقل و شعور رکھنے والا شخص اس بات پر غور کرے گا کہ کیوں نہ زیادہ آزاد فضا میں سانس لے کر دین کی دعوت کو دْنیا میں پھیلائے۔

دارالکفر میں قیام کے سلسلے میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر وہاں پر اسلام کی دعوت پیش کرنے اور آخرکار اسلام کے غالب آنے کے امکانات ہوں تو وہاں پر قیام حرام نہیں کہا جاسکتا۔ اگر اس کا امکان نہ ہو تو وہاں کا قیام ایک قسم کی معصیت شمار ہوگی۔ اگر ایک نام نہاد مسلم ملک میں کوئی کام بغیر رشوت اور سفارش کے نہ ہو رہا ہو‘ اس کے اخبارات مسلسل عریانی کو فروغ دے رہے ہوں لیکن نام کی حد تک وہ ملک مسلمان ہو تو کیا محض نام کافی ہوگا؟ اگر اس نام نہاد مسلم ملک میں اصلاح اور اسلام کے غالب آنے کے امکانات ایک دارالکفر سے زیادہ ہوں تو عقل کا فیصلہ اس نام نہاد مسلم ملک میںقیام کے حق میں ہوگا۔

مکہ میں اشاعت اسلام کے وقت شرک اور کفر کا غلبہ تھا لیکن 13 سال تک حضور نبی کریمؐ وہاں پر اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں رہے۔ جب وہاں دعوت اسلامی کے لیے مشکلات ناقابل برداشت ہوگئیں تو مدینہ ہجرت فرمائی جو پہلے سے دارالاسلام نہیں تھا۔ آپؐ کے وہاں ہجرت فرمانے کی وجہ سے وہ شہر مدینۃ النبیؐ بنا۔ مکہ کے دور ابتلا میں صحابہ کرامؓ کی جماعتوں نے حبشہ ہجرت کی جہاں پر اسلامی حکومت نہ تھی لیکن فرماں روا عادل تھا‘ گو اس کے درباری بڑی حد تک مشرک تھے۔ ان تاریخی حقائق کے پیش نظر اپنی تمام مسلم دشمنی کے باوجود ہم امریکا اور یورپ کو دارالحرب قرار نہیں دے سکتے۔ ہر دو خطوں میں حالیہ نفرت کی لہر کے باوجود سیکڑوں افراد نے اسلام قبول کیا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ کیا بعید کہ آج ہم جن ممالک کو دارالکفر قرار دیتے ہیں کل وہی اسلام کی نشات ثانیہ کا مرکز بن جائیں‘ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ جو ڈاکٹر‘ انجینیر‘اساتذہ اور دیگر کارکن وہاں مقیم ہیں وہ دعوت دین کے فریضے کو کتنی ذمے داری کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ اگر ان کے یورپ اور امریکا جانے کا مقصد محض دْنیا کا حصول ہے‘ جیسا کہ ایک حدیث کے مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ہجرت ایک خاتون سے شادی کے لیے ہوتی ہے اور کسی کی صرف اللہ کے لیے اور پھر یہ فرمایا کہ اعمال کی بنیاد نیت پر ہے‘ تو اگر ایک ڈاکٹر اس نیت سے ہجرت کرتا ہے کہ وہ یورپ اور امریکا میں اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی صلاحیت کا استعمال کرے گا‘ ساتھ ہی ڈاکٹری یا کسی بھی پیشے کے ذریعے دولت بھی کماتا ہے‘ تواس پر ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔

یہ خیال رہے کہ دعوت دین کے حوالے سے اس کا اپنا گھر‘ بیوی اور بچے بھی دعوت کے اوّلین مخاطبین ہیں اور وہ جہاں بھی ہوں وہ ان کی صحیح دینی تعلیم و تربیت کے لیے اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ جس وقت تک ایک مقام پر دعوت دین پیش کرنے کی آزادی اور خود عمل کرنے پر کوئی بندش یا مزاحمت نہ ہو‘ اس وقت تک وہاں سے ہجرت نہ کرنا افضل ہے۔ لیکن اگر پابندیاں اتنی بڑھ جائیں کہ دین کا تحفظ ایک مسئلہ بن جائے تو ہجرت کرنا سنت ہے۔ البتہ ایسے تمام مواقع پر معروضی طور پر جائزہ لینے اور اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے۔