کشتی سازی اْس کا خاندانی پیشہ تھا جس سے اْسے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ عالم ِ دین بننا چاہتا تھا تاکہ معاشرے کا باعزت فرد بن سکے۔ والد ِ محترم کا نام عبداللہ اور والدہِ ماجدہ کا نام آمنہ تھا ناموں کے اس حْسن ِ اتفاق نے اْسے محترم بنا دیا تھا۔ اہل ِ محلہ اور شناسا عقیدت بھری نظروں سے دیکھتے تھے اس حْسن ِ اتفاق کے باعث وہ تاریخ کا نامور شخص قرار پایا۔
قرآنِ فرقان کا ترجمہ مکمل ہوگیا تو اْس کے والد ِ محترم نے کہا محمد تمہاری دینی تعلیم مکمل ہو چکی ہے اب میرا ہاتھ بٹایا کرو۔ وہ یہ سْن کر بہت حیران ہوا اور اپنے والد ِ محترم عبداللہ سے کہا اگر قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے بعد دینی تعلیم کی ضرورت نہیں رہتی تو تمام مدرسے منہدم کروا دو اس کے جواب سے نہ صرف والد ِ محترم بلکہ والدہ ِ ماجدہ کو بھی سخت حیرت ہوئی مگر کسی سخت ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا دونوں ہی فطرتاً متحمل مزاج تھے البتہ اْنہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ محمد کو اس کے چچا کے سپرد کر دیا جائے پھر اْنہوں نے محمد کو چچا کے پاس بھیج دیا یہاں آکر وہ ایک مدرسہ میں داخل ہوگیا وہ جانتا تھا کہ اْس کا خاندانی پس ِ منظر ایسا نہیں جو معاشرے میں عزت و احترام کا سبب بنے۔ عالم ِ دین بننے کے بعد لوگ اس کی عزت کرتے اور حْسنِ اتفاق کے حوالے سے عقیدت کا اظہار کرتے۔
زمین کسی بھی ملک کی ہو بے وفائی برداشت نہیں کرتی خون کسی بھی قوم کا ہو بے حرمتی نہیں سہتا، تاریخ کسی بھی قوم و ملک کی ہو دروغ گوئی کی تذلیل اْس کی گھٹی میں شامل ہوتی ہے البتہ مصلحت آمیز دروغ گوئی جو کسی نیک مقصدکے لیے کی جائے تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن جاتی ہے۔ محمد کا تعلق سوڈان سے تھا۔ سوڈان مسلم ملک تھا حکمران بھی مسلم تھے مگر عملاً حکمرانی انگریزوں کی تھی۔ مسلمانوں کی حالت ِ زار بہت افسوس ناک اور پریشان کْن تھی کوئی بھی شخص مخلص دکھائی نہیں دیتا تھا مذہب کے نام پر ذاتی مفادات اور تحفظات کو فوقیت دی جاتی تھی۔ اس ماحول سے اْسے نفرت ہونے لگی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کی حالت سوڈان سے مختلف نہیں یہاں پر بظاہر مسلمان حکمران ہیں مگر اْن کا کام درآمد ہدایات پر عمل درآمد کراناہے۔ اصل حکمران بیرونِ ملک بیٹھے ہوئے ہیں وہ تادیر اس صورتحال کا متحمل نہ ہوسکا۔ دنیا کے ہنگاموں سے دور ایک غار میں رہائش اختیار کرلی یہاں بھی عبادت اور ریاضت جاری رہی اْس کے زہد و تقویٰ کی داستانیں شہرت پانے لگیں۔ عقیدت مندوں نے غار کے ارد گرد چکر لگانا شروع کر دیے وہ بیعت کرنے کے طلب گار تھے۔ محمد احمد اْن کی خواہش کے مطابق بیعت لینے لگے روز بروز مریدوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ان کی مقبولیت سے نام نہاد پیرانِ شریعت خائف ہونے لگے۔
کہتے ہیں مولانا جمال الدین افغانی بھی اْن کی زہد و تقویٰ کی شہرت سے بہت متاثر ہوئے اْنہوں نے محمد احمد سے ملاقات کی مولانا بھی مسلمان ممالک پر انگریزوں کی حکمرانی سے متنفر تھے۔ اْنہوں نے ان حالات پر سیر حاصل گفتگو کی مولانا کو اس حْسن ِ اتفاق کا علم تھا کہ محمد احمد کے والد ِ محترم کا نام عبداللہ ہے اور والدہِ ماجدہ کا نام آمنہ ہے سو اْنہوں نے مشورہ دیا کہ اس حْسن ِ اتفاق سے استفادہ کرو۔ لوگ اْن کی علمیت سے متاثر تھے اور ناموں سے حْسن ِ اتفاق کے عقیدت مند تھے۔ محمد احمد نے استفسار کیا کہ اس حْسن ِ اتفاق سے کیسے فائدہ اْٹھایا جا سکتا ہے؟ مولانا افغانی نے کہا کہ افریقا اور ایشیائی ممالک پر مغربی اقوام کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں اْن کے قومی اور مذہبی جذبات مجروح ہورہے ہیں۔ تم چاہوں تو سوڈان سے انگریزی تسلط اور اثرات کو نیست و نابود کر سکتے ہو محمد احمد نے کہا میرے پاس نہ تو اسلحہ ہے اور نا ہی فوجی تربیت کا کوئی بندو بست ہے البتہ مریدوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے مگر انگریز حکمرانوں کے مد ِ مقابل آنا دانش مندی نہیں۔
مولانا افغانی نے مشورہ دیا کہ تم مصلحت آمیز پیغام کا سہارا لے کر اْن کا مقابلہ کرسکتے ہو۔ محمد احمد نے استفسار کیا کہ مصلحت آمیز پیغام سے آپ کی کیا مراد ہے۔ مولانا افغانی نے کہا تم امام مہدی ہونے کا دعویٰ کر دو کیونکہ تمہارا نام محمد ہے والد کا نام عبداللہ ہے اور والدہ کا نام آمنہ ہے۔ ناموں کا یہ حْسن ِ اتفاق تمہارے مریدوں اور عقیدت مندوں میں بے پناہ اضافے کا سبب بنے گا اور یہ لوگ احیاء ِ دین کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ جو مسلمان مسجد میں سر جھکانے کا روادار بھی نہ ہو مسجد کے نام پر سر کٹانے پر ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ محمد احمد نے کہا اس حقیقت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا مگر مسئلہ یہ ہے کہ مریدوں کی اکثریت ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں۔
(جاری ہے)