چار جون کو جب بھارت کے انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے اور ایگزٹ پولز کے برعکس مودی کا اب کی بار چار سو پار کا خواب چکنا چور ہوتا نظر آنے لگا تو پاکستان میں بھی بھارتی انتخابات کے حوالے سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ نریندر مودی اور ان کی پارٹی چارسو تو درکنار تین سو نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکی لیکن اس کے باوجود اتحادیوں کی مدد سے تیسری مرتبہ وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا کیونکہ مجموعی طور پر ان کے پاس کانگریس کے حمایت یافتہ بلاک سے زیادہ نشستیں ہیں۔ 9جون 2024 کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد نریندر مودی بھارت کے وہ دوسرے شخص ہو گئے جسے تین بار وزارت عظمیٰ کا منصب ملا۔ ان سے پہلے کانگریس کے رہنما جواہر لعل نہرو 1952,1957 اور 1962 میں تین مرتبہ بھارت کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔
سرمایہ دارانہ دنیا میں وزیراعظم مودی کے دس سالہ اقتدار کی جس ترقی کے گن گائے جاتے ہیں جس میں بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے وہ ایک نا ہموار ترقی ہے جس میں امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہوا ہے۔ دس سال میں وہ ملک کو انتہائی غربت سے نکال سکے اور نہ معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان دولت کی اس شدید غیر منصفانہ تقسیم میں کمی لاسکے جس کا اس وقت بھارت کو سامنا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا اعجاز ہے جس میں ترقی ہوتی ہی ناہموار ہے۔ 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے امیر ترین 10 فی صد افراد کے پاس ملک کی 50 فی صد دولت ہے جبکہ 50 فی صد غریب ترین آبادی کے پاس محض 13 فی صد۔
بھارتی مزدوروں کا شدید ترین استحصال کر کے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بنانے والے انڈین سرمایہ داروں کے پاس اس وقت بہت زیادہ دولت اور وسائل اکٹھے ہو چکے ہیں۔ اگر ان تمام وسائل کو مٹھی بھر سرمایہ داروں سے چھین کر پورے سماج کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے تو چند دنوں میں انڈیا سے غربت، مہنگائی، بیروزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ ٹریکل ڈائون کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی کا معیار یہ نہیں ہوتا کہ ملک میں غربت کی شرح میں کتنی کمی آئی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ملک کے سرمایہ داروں کی دولت میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے۔ مفروضہ یہ قائم کرلیا گیا ہے کہ جب ان سرمایہ داروں کے پیالے بھر جائیںگے تو چند سکے ان سے چھلک کر نیچے عوام کی طرف بھی گریں گے۔ غریب عوام کے گھروں کے اندھیروں تک پہنچتے انہی چند سکوں کو بنیاد بنا کر کہا جاتا ہے کہ جب کسی ملک کے سرمایہ داروں کے سرمائے میں اضافہ ہوگا تو پھر عوام کو بھی کچھ نہ کچھ ملے گا۔ سرمایہ داروں کی لالچی ذہنیت اور اس نظام کی غریبوں کے باب میں بد نیتی اب یہ بھی گوارا نہیں کرتی۔ سرمایہ داروں کی معاشی ترقی کے باوجود غریبوں، مزدوروں اور محنت کش طبقے کو کچھ ملنے کے بجائے ان سے ان کا بچا کھچا بھی چھینا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کے دونوں ادوار میں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔
مودی کو اپنے دور اقتدار میں سرمایہ داروں کی بھرپور مدد حاصل رہی ہے جن کی دولت میں ان کے اقتدار میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ایڈانی اور امبانی جیسے سرمایہ داروں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا جب کہ غریبوں کو پانچ کلو چاول اور گندم دے کر انہوں نے غربت ختم کرنے کے دعوے کردیے۔ مودی خود کو غریبوں کا نمائندہ باور کرایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے میں عوام میں سے ہوں اور ایک چائے بیچنے والے کا بیٹا ہوں لیکن ان کا ایجنڈا غریبوں کے مفاد کے بالکل برعکس رہا۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے پیداوار کو بڑھانے اور ملک کی بے تحاشا دولت کا استحصال کرکے انہوں نے غریب اور امیر کے درمیان خلیج میں اضافہ کیا ہے اور کرپشن میں اضافہ کرکے جدید دور کے مہاراج سرمایہ داروں کی خدمت کی ہے۔ مودی کے عہد اقتدار کی معاشی ترقی کا ماحصل یہی ہے کہ ان کے دور میں بھارتی معاشرہ دولت کے بے تحاشا ارتکاز اور چند ہاتھوں میں سمٹنے کے معاملے میں تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
ترقی کے تمام تر دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں بے روزگاری تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے خصوصاً نوجوانوں میں اس کی شرح بہت زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی جانب سے شائع کردہ ’انڈیا ایمپلائمنٹ رپورٹ 2024ء‘ کے مطابق ’ملک میں ہر تین میں سے ایک نوجوان بیروزگار بیٹھا ہے‘۔ حتیٰ کہ 15 فی صد گریجوایٹس بھی بیروزگار ہیں۔ جبکہ سیکنڈری اور 12 ویں پاس نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 65.7 فی صد ہے۔ مودی کے دور میں آئی ٹی کے شعبے کو فوکس کرنے کے بڑے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان میں بھارت کے آئی ٹی کے شعبے میں ترقی کے بڑے چرچے ہیں لیکن اس کی حقیقت بھی یہ ہے کہ اس سیکٹر میں لوگوں کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے۔ ’دی اکنامک ٹائمز‘ کی مارچ 2023ء کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً 6 فی صد آئی ٹی سے جڑے کنٹریکٹ ورکرز اپنی نوکریاں کھو چکے تھے۔ اسی طرح اگست 2023ء تک ٹیک کمپنیوں (Technology Companies) نے 2 لاکھ 26 ہزار ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا۔ اور اس وقت بڑی ٹیک کمپنیوں نے نئی بھرتیاں کرنا بھی بند کی ہوئی ہیں۔
وزیراعظم مودی اپنی سابقہ الیکشن مہم میں ایک ارب نوکریاں دینے کا وعدہ کیا کرتے تھے۔ اس نعرے کا حشر یہ ہوا کہ اب وہی مودی یہ کہہ رہے ہیں کہ سرکار کا کام نوکریاں پیدا کرنا نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی مفروضوں کی دنیا نے انہیں یہ پٹی پڑھائی ہے کہ جتنا ہوسکے عوامی اداروں کو پرائیوٹائز کیا جائے۔ پرائیوٹ سیکٹر خود نوکریاں پیدا کرے گا۔ پرائیوٹ سیکٹر میں بڑی کمپنیوں کا یہ حال ہے کہ ان کا سائز اور منافعوں کا حجم بہت زیادہ ہونے کے باوجود جدید مشینری کو استعمال کرکے وہ کم سے کم ملازمین سے کام لینے کو ترجیح دیتا ہے۔ چھوٹے کاروبار اور اسٹارٹ اپس اگرچہ بڑی کمپنیوں کے مقابلے میں نوکریوں کے زیادہ مواقع رکھتا ہے لیکن اس سیکٹر میں تنخواہیں بہت کم ہیں اور مزدوروں کو دیگر حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔
مودی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں تیسری مرتبہ وزیراعظم نہیں بنے۔ نسلی طبقاتی اور گروہی وابستگیاں ہی تھیں جو اس انتخاب میں بھی مودی کی کامیابی کی وجہ بنی۔ یہ انتخابات ملک میں سیاسی جہالت اور جھوٹی خبروں کے طوفانوں میں منعقد ہوئے جسے ریاست اور اس کے ادارے مختلف جدید ٹیکنالوجیز کو استعمال کرکے پھیلاتے رہے جن کا واحد مقصد رائے دہندگان کے ذہنوں کو تبدیل کرنا اور حکومت کی مخالف آوازوں کو دبانا تھا خاص طور پر مسلمانوں کی آوازوں کو جن کے پاس ایک متبادل تہذیبی منصوبہ موجود ہے۔
چائے والے کے مقام سے گزرتے ہوئے خود کو بھگوان سمجھنے کے مرحلے تک پہنچ جانے والے نریندر مودی نے حالیہ الیکشنوں میں اپنے دعووں کی ناکامی سے کچھ سیکھا ہو اس کی امید نہیں۔ ان کی فاشسٹ ذہنیت اتحادیوں کے ساتھ مل کر چل سکے اس کے امکان بھی کم ہیں۔ اس لیے اب کی بار کو مودی کا آخری بار کہا جارہا ہے۔ مودی ہی نہیں سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنے آخری مراحل طے کررہا ہے جو دنیا کو ہر جگہ بدحالی کے سوا کچھ نہیں دے رہا۔