سیو غزہ مہم کے مطالبات کیا ہیں؟

469

7 اکتوبر 2023ء سے جاری غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کو تقریباً 8 ماہ گزرنے کو ہیں۔ اس دوران اسرائیل کے لیے اسلحے کی فراہمی اور مکمل حمایت امریکا اور تمام یورپی ممالک نے مکمل طور پر بغیر کسی شرط کے فراہم کی۔ اب 8 ماہ کے بعد امریکا صدر پہلی دفعہ اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں کہ فلسطینی علاقوں پر امریکی بم استعمال کرنے سے عام شہریوں کی جانیں گئیں۔ حیرت ہے اس بات کا ادراک ہونے میں انہیں 8 ماہ لگ گئے۔ اس دوران اسرائیلی حملوں میں 34 ہزار بے گناہ شہری شہید ہوگئے۔ جن میں 13 ہزار سے زیادہ بچے ہیں۔ غزہ کی 20 لاکھ آبادی بے گھر ہوگئی۔ عام شہری اور معصوم بچے غذائی قلت کا شکار ہوئے۔ اسرائیل کی طرف سے امریکی اور یورپی حمایت کے ساتھ ان پر قحط مسلط کردیا گیا۔ اسکولوں اور اسپتالوں کو بمباری کے ذریعے تباہ و برباد کردیا گیا۔ مساجد اور گرجا گھر گرادیے گئے۔ یعنی غزہ کی جنگ اکیسویں صدی کی تباہ کن جنگ بن گئی۔ اس تباہ کن جنگ کے لیے امریکا نے ہر طرح کی امداد فراہم کی، اب اگر امریکی صدر کو اس کا احساس ہوا ہے تو وہ انتخابات کے موقع پر ہوا ہے۔

حال ہی میں 9 جون کو مظاہرین نے وائٹ ہائوس کے قریب احتجاج کیا، ہزاروں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ ’’ہم ڈی سی سے فلسطین تک ریڈ لائن ہیں‘‘۔ مظاہرین امریکی صدر کی ریڈ لائن کو جھوٹ قرار دے رہے تھے۔ یہ دراصل امریکی صدر کی مئی میں کہی گئی بات تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل نے رفح پر مہلک حملے سے ’’ریڈ لائن‘‘ عبور نہیں کی۔ تمام مظاہرین سرخ کپڑوں میں ملبوس تھے۔ ایک پچیس سالہ امریکی کا کہنا تھا کہ ’’میں جوبائیڈن کے الفاظ پر مزید یقین نہیں کرتا‘‘۔ مظاہرین جو بینر اٹھائے تھے ان پر لکھا تھا ’بائیڈن کی ریڈ لائن ایک جھوٹ تھا‘‘ اور ’’بچوں پر بم برسانا اپنا دفاع نہیں ہے‘‘ ایک خاتون نرس مظاہرے میں شامل ہونے پر کہتی ہیں کہ ’’یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ آپ کا صدر اپنے الفاظ پر عمل نہ کرے اور یہ کہ اب میں کسی تیسری جماعت کو ووٹ ڈالوں گی‘‘۔ امریکی صدر کے انتخابات میں 5 ماہ باقی ہیں، ان کا تازہ بیان اپنی انتخابی کامیابی کے لیے ایک ضرورت کے تحت دیا گیا ہے جبکہ انہیں مسلمان اور نوجوان ووٹرز کی حمایت چاہیے۔ امریکا ایک طرف اسرائیل کے رفح میں کسی بھی بڑے آپریشن کی مخالفت کرتا ہے اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ اسرائیل کو حماس کے ارکان کا تعاقب کرنے کا حق حاصل ہے۔ یوں اسرائیل غزہ کے بے گناہ شہریوں پر بم برساتا رہا ہے، اُسے کھنڈر بناتا رہا، اور امریکا اُسے گولا بارود اور ہر طرح کے ہتھیار فراہم کرتا رہا۔ اعداد و شمار کے مطابق 2019ء سے 2023ء تک اسرائیل نے اپنی 70 فی صد فوجی خریداری امریکا سے کی اور پھر 2018ء سے 2028ء کی مدت کے دوران امریکا اسرائیل کو 38 ارب ڈالر کی فوجی امداد، امریکی فوجی آلات خریدنے کے لیے 33 ارب ڈالر کی گرانٹ اور میزائل ڈیفنس سسٹم کے لیے 5 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔ اس صورت حال میں اسرائیل رفح پر بمباری کررہا ہے۔

وزیراعظم نیتن نے امریکی صدر کی اس دھمکی کو مسترد کردیا ہے کہ اگر اسرائیل نے رفح پر کوئی بڑا حملہ کیا تو اس کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل روک دی جائے گی۔ اسرائیلی مسلح افواج کے ترجمان کہتے ہیں کہ ان کے پاس اتنے ہتھیار موجود ہیں جتنے رفح اور ایسی دوسری کارروائیوں کے لیے درکار ہیں۔ یعنی اسرائیل اپنی غیر انسانی وحشیانہ حرکتوں سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ فلسطینیوں کے اس قتل عام پر اسلامی حکومتوں کو کچھ تو کردار ادا کرنا چاہیے۔ سعودی عرب، ترکی اور پاکستان سفارتی دبائو تو ڈال سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے امداد کی فراہمی کے لیے راستے تو کھلوا سکتے ہیں۔ پاکستان میں عوام کے دل فلسطین کے لیے تڑپ رہے ہیں لیکن حکومتی سطح پر غزہ کے لیے کوئی تڑپ نظر نہیں آتی۔ ’’سیو غزہ‘‘ مہم سینیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ بھرپور قوت کے ساتھ چلا رہی ہیں۔ حکومت بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے اُن کے خلاف اقدامات میں مصروف ہے۔ حمیرا مشتاق اور مشتاق احمد صاحب کے خلاف دس پندرہ ایف آئی آر کاٹی جاچکی ہیں۔ ان کو گرفتار بھی کیا گیا، پھر عدالتی حکم پر ضمانت پر رہا کیا گیا۔ دھرنے کے لوگوں پر حکومتی ادارہ کے حاضر سروس نے گاڑی چڑھا دی۔ مشتاق احمد نشانہ ہوسکتے تھے، لیکن زندگی

تھی بچ گئے، دو معصوم کارکن شہید کردیے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غزہ کے معصوم عوام کے لیے چلائی گئی اس مہم میں حکومت منتظمین کے ساتھ کچھ نہ کچھ تو تعاون کرتی لیکن حکومت تعاون کے بجائے انتہائی سخت رویہ رکھے ہوئے ہے۔ حکومت کا یہ سخت رویہ بتاتا ہے کہ ہماری حکومت امریکا کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ حالانکہ خود امریکا میں وائٹ ہائوس کے سامنے بہت بڑے مظاہرے ہورہے ہیں اور ان کے باعث امریکی صدر اپنے بیان میں تبدیلی پر آمادہ بھی ہوئے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کے لیے یہی بات سیو غزہ کمپین کے تحت سینیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ حمیرا طیبہ کہہ رہی ہیں۔ ان کے پانچ مطالبات ہیں۔ پہلا اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکا جائے۔ دوسرا پاکستان بین الاقوامی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا کے مقدمے کی حمایت کرے۔ تیسرا پاکستان کی طرف سے ان تمام ممالک کے سفیروں کو مراسلے بھیج کر اظہار ناراضی کیا جائے جو اسرائیل کے حامی ہیں۔ چوتھا غزہ سے زخمیوں کو نکالنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور پانچواں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں اسرائیل پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔ یہ مطالبات کوئی ایسے نہیں کہ ان پر عمل درآمد جوئے شیر لانے کے مترادف ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اپنے آپ کو غزہ کے ہمدردوں میں شامل کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔