پاک چین اقتصادی راہداری یعنی سی پیک جو کبھی ہمارے لیے گیم چینجر ہوا کرتی تھی اب فقط ایک ایسا جنتر منتر ہو کر رہ گئی ہے جس کی مالا جپنے سے پاکستان وقتی طور پر آئی ایم ایف کے دباؤ سے نکل آتا ہے۔ جب بھی آئی ایم ایف پاکستان کا گلہ گھونٹ دیتا ہے تو پاکستان کے حکمرانوں کو سی پیک کی یاد ستانے لگتی ہے اور وہ یہ منتر پڑھ کر یا تو چین سے اپنے قرضوں کی تجدید کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا چین زرمبادلہ کے ذخائر کی رونقیں بڑھانے کے لیے کچھ مزید ڈالر اْچھال دیتا ہے۔ یوں ہم ’’تیری بندہ پروری سے میرے دن گزر رہے ہیں‘‘ کا چلتا پھرتا اشتہار بن کر رہ گئے ہیں۔ ستہتر برس سے یہ آنکھ مچولی جاری ہے۔ نہ پاکستان ترقی اور حقیقی اقتدار اعلیٰ کی راہوں پر نمایاں پیش رفت کرتا ہے نہ اس کی حرماں نصیب نسلوں کے دن بدل رہے ہیں۔ اس کھینچا تانی میں آدھا ملک اور آدھے سے زیادہ آبادی اپنی راہیں جدا کرکے الگ ملک بن بیٹھی ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کی معاشی شہ رگ پر پاؤں رکھے ہوئے ہے اور حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ٹوٹتے جڑتے مذاکرات کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف ایک بار پھر سی پیک کا منتر پڑھتے ہوئے چین پہنچے۔ بیجنگ کے گریٹ ہال میں انہوں نے چینی صدر ژی چن پنگ سے ملاقات اور فوٹو سیشن کیا۔ سی پیک کے اگلے مراحل کا آغاز کرنے کے عہد وپیماں ہوئے۔ ایک وزیر نے نوید سنائی کہ چین پاکستان میں معدنیات سمیت دوسرے شعبوں میں کام کرنا چاہتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ سی پیک ابھی مکمل طور پر غیر متعلق نہیں ہوا بلکہ التوا کا شکار ہے۔
چینی کارکنوں پر پہ در پہ حملوں کے نتیجے میں سی پیک کی رفتار سست ہوچکی ہے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عملی طور پر اس منصوبے پر تالہ چڑھادیا گیا ہے۔ امریکی سفیر گوادر کی بندرگاہ کے آگے کھڑے ہوکر سیلفی بنا کر دنیا کو پیغام دے رہے تھے کہ کل تک چین نے جس مقام کو امریکا کے لیے نوگوایریا بنا رکھا تھا آج وہ اس میں تمکنت کے ساتھ قدم رنجہ فرما چکے ہیں۔ چین اپنے تکنیکی ماہرین اور کارکنوں کی بڑی تعدا د کو سیکورٹی خدشات کے باعث واپس بلا چکا ہے اور ان کے خیال میں سی پیک کا تعمیراتی کام اور دہشت گردوں کے حملے ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ چینیوں کے مطابق سی پیک ایک پورے کلچر کا نام تھا ایسا کلچر جس میں پاکستان پرامن اور غیروں کی جنگوں کا اکھاڑہ نہیں ہوگا اور چین کو محدود کرنے کے عالمی منصوبوں سے اپنا دامن مکمل بچا لے گا۔ تب یہ منصوبہ صرف چین کے لیے ہی نہیں پاکستان کے لیے بھی گیم چینجر ہوجائے گا۔ جنوبی چین کے سمندروں اور بحرالکاہل میں چین کا گھیراؤ مکمل ہے اور وہاں تائیوان ایک ٹائم بم کی صورت اختیار کر چکا ہے جو اسے چھونے میں پہل کرے گا ہواؤں میں تحلیل ہوجائے گا۔ ایسے میں سی پیک اسے ایک مختصر روٹ کے ذریعے مغربی دنیا اور خلیج تک پہنچنے کا آسان اور محفوظ راستہ تھا اور اس سے چین کے شمالی حصے کو بھی ایک انقلاب سے آشنا ہونا تھا جو ترقی کی دوڑ میں جنوبی حصے سے دور ہے۔ امریکا سرد جنگ کے نئے دور کی تیاریاں کر رہا تھا اور سوویت یونین کے بعد اس سرد جنگ کا مرکز ومحور چین کو محدود کرو یا روکو تھا۔ سوویت یونین کو محدود کرنے کے لیے افغانستان اہم تھا کیونکہ وہ پاکستان بحر عرب اور سوویت یونین کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ تھا اور چین کو روکنے کے لیے پاکستان اہم ترین ہے کیونکہ اس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں اور پاکستان ہی چین کو اگلی منزلوں کی راہداری فراہم کر سکتا ہے۔
افغانستان سے امریکا کا انخلا امریکا کے لیے ایسا داغ بنا جسے انہوں نے پاکستان کو قابو کرنے کے ذریعے دھونے کی پالیسی اختیار کی۔ آج خطے میں چین، روس، ایران اور افغانستان ایشین ورلڈ آرڈر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ڈالر کو دیس نکالا دینے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ افغانستان میں امن قائم ہو رہا ہے اور وہ شمالی اتحاد سلمانی ٹوپیاں پہن کر غائب ہو گیا ہے جس نے ایک دور میں خوں ریز لڑائیوں اور بہادری سے طالبان کی پیش قدمی کو روکا تھا۔ اس وقت طالبان کو امریکا نواز سمجھا جاتا تھا اور شمالی اتحاد احمد شاہ مسعود کی قیادت میں روس اور چین کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ بھارت بھی اس ناتے شمالی اتحاد کی مدد کرتا تھا اور ایران بھی اسی وجہ سے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالتا تھا۔ آج تین سال سے طالبان ملیشیا کابل کی حکمران ہے اور طورخم سے دریائے آمو تک ان کا کنٹرول ہے۔ احمد شاہ مسعود کا بیٹا احمد مسعود جسے طالبان کے خلاف عملی مزاحمت میں پوسٹر بوائے کے طور پر جنگ کی قیادت کرنا تھی فقط ہفتے دس دن بعد کسی وسط ایشیائی ریاست میں اپنے والد کے انداز میں ترچھی چترالی ٹوپی پہن کر کسی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے تصویر جاری کرنے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ روس نواز ازبک ملیشیا کے سربراہ جنرل رشید دوستم جنہیں طالبان مخالف جنگ کا دوسرا ہیرو ہونا تھا کی بیٹی راحلہ دوستم اب طالبان کے خلاف کسی محاذ پر داد شجاعت دینے کے بجائے ترکی سے اپنے بابا کی فیلڈ مارشل دوستم یعنی تمغوں لگی وردی میں تصویریں جاری کرکے ماضی کی یادوں کو تازہ کیے ہوئے ہیں۔ یوں شمالی اتحاد طالبان کے آگے ڈھیر ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ طالبان کی بہادری نہیں بلکہ یہ ہے کہ روس، چین، ایران اور بھارت سمیت کوئی بھی طالبان کے مقابل شمالی اتحاد کی مزاحمت کی حمایت کرنے کو تیار نہیں۔ طالبان سے لڑنے اور افغانستان سے کشیدگی کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈال دیا گیا ہے۔
طالبان کے ساتھ پاکستان کی عملی کھٹ پٹ شروع ہوتی ہے تو اس کی گہرائی اور سنگینی کو اس تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ’’ابسلیوٹلی ناٹ‘‘ کی اْلجھی ہوئی ڈور کا سرا ہاتھ آرہا ہے۔ یہ وہ دن تھے جب امریکا پاکستان سے ’’چین روکو‘‘ محاذ میں شامل ہونے کے لیے اسی طرح دباؤ بڑھا رہا تھا جس طرح ماضی میں سوویت یونین مخالف اتحادوں سیٹو اور سینٹو میں اسے کان سے پکڑ کر اتحادی بنا یا گیا تھا یہاں تک کہ سوویت یونین نے پشاور پر میزائلوں کی برسات کی دھمکی دے کر اس منظر کو بدلا تھا۔ پاکستان کا ایک حکمران جو ان دنوں قید ہے ماضی کے بار بار کے تلخ تجربات کے باعث ’’روس روکو‘‘ کے بعد ’’چین روکو‘‘ تحریک کا حصہ بننے سے انکاری تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ نوازشات کی برسات تو بھارت پر ہے تو اسے شامل کر لیں ہمیں مزید کسی ’’روکو‘‘ تحریک سے معاف رکھیں۔ جب ہم کسی کو روکنے کے عمل میں شریک ہوں گے تو اس کے لیے پراکسی جنگ بھی لڑی جائے گی اور پراکسی جنگوں نے پہلے ہی پاکستان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے مزید کوئی جنگ اسے مزید تباہ حال کردے گی۔ اس کے برعکس ایک نابغہ روزگار شخصیت کا خیال تھا کہ ہم سی پیک کا منترا بھی پڑھتے رہیں گے اور عملی طور پر امریکا کے اتحادی بن کر مزید معاشی فوائد بھی حاصل کریں گے۔ یوں ابسلیوٹلی ناٹ کی ریورسل حقیقت میں سی پیک کی ریورسل تھی۔ اب سی پیک کیپ فریز ہوا یا رول بیک خداجانے مگر کوئی واردات ہو چکی ہے۔
سی پیک ایک معاشی سرگرمی ہے اور دہشت گردی اور معاشی سرگرمی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایسے میں چین کا یہ مطالبہ ہورہا ہوگا کہ اگر آپ واقعی سی پیک چلانے میں سنجیدہ ہیں تو پھر اس کی حفاظت کا میکیزم بھی ہمیں ہی بنانے دیں۔ یہ جملہ معترضہ ہے جس پر پاکستان کا ایک اور ابسلیوٹلی ناٹ کہنا بھی بنتا ہے۔ ابسلیوٹلی ناٹ کی ریورسل کی ریورسل یا سجدہ سہو ہوئے بغیر سی پیک کی تجدید کے عہد وپیماں تو ہو سکتے ہیں اور معدنیات کی کانوں کے ٹھیکے اور تجارتی حجم میں اضافہ بھی ممکن ہے مگر اس سے گیم چینج ہونے کا امکان نہیں۔ اس طرح کے تعلقات تو قوموں اور ملکوں میں معمول ہوتے ہیں ان سے کسی قوم کی قسمت تبدیل نہیں ہوتی۔ سی پیک کا منترا شاید پاکستان کے زرمبالہ کے ذخائر کی سطح کچھ بلند کر سکتا ہے مگر یہ عام پاکستانی کی تقدیر اس طرح نہیں بدل سکتا جس کا خواب سی پیک کی تکمیل اور ایشیائی اتحادیوں کے ساتھ جڑے رہنے میں مضمر تھا۔