ایک بار پھر یورپ پر سب کی نظر

361

امریکی مارکیٹ 1929 میں کریش ہوئی۔ یوں پہلی جنگ ِ عظیم کی عظیم تباہ کاریوں کے بعد امریکا کی قیادت میں ایک نئے عالمی نظام کے قیام کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ امریکا اور یورپ ایک بار پھر اندر ہی اندر الجھ گئے اور معاشی مفادات کے لیے تصادم بھی بڑھ گیا۔ مزید یہ کہ جرمن ووٹرز نے نئے عالمی نظام کے خلاف رائے دی۔

جرمنی میں 1933میں نازی اقتدار میں آئے۔ نازی خالص نسل پرستی اور قوم پرستی کے تناظر میں اپنا عالمی نظام چاہتے تھے۔ اُن کے نزدیک جو لوگ آریہ نسل کے تھے اُنہیں یا تو غلام بن کر رہنا تھا یا پھر اِس دنیا میں نہیں رہنا تھا۔ اگر ہٹلر نے 1941 میں سوویت یونین کو ہرادیا ہوتا تو یوریشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے نقشے کچھ اور ہی ہوتے۔ کون نہیں جانتا کہ نام نہاد یورپی طاقتیں جرمن پیش قدمی روکنے میں ناکام رہی تھیں۔ 1941 پرل ہاربر پر جاپانیوں کے حملے کے بعد امریکا نے دوسری جنگ ِ عظیم میں انٹری دے کر نازیوں سمیت محوری قوتوں کو دُھول چٹائی۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا نے امریکا کی سیاسی، معاشی اور دانشور اشرافیہ نے طے کیا کہ ایک لبرل، سرمایہ دارانہ عالمی نظام لایا جائے گا جس میں پارلیمانی جمہوریت کی گنجائش ہوگی۔

جنوری 1942 میں نیوز پیپر ٹائیکون ہنری لیوس نے معروف جریدے ’’لائف‘‘ میں ’’دی امریکن سینچری‘‘ کے زیرِعنوان مضمون میں استدلال کیا کہ امریکا کو نئے عالمی نظام کے لیے بھرپور کوشش کرنی ہی چاہیے۔ سوال سوویت کردار کا تھا۔ چند امریکیوں کو یقین تھا کہ امریکا جو نیا عالمی نظام بنانا چاہتا تھا اُس میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تمام متعلقہ ریاستیں بھی کھپ جائیں گی اور سوویت یونین کو بھی ایڈجسٹ کرلیا جائے گا مگر 1946 تک واضح ہوگیا کہ سوویت یونین کو نئے عالمی نظام کی لڑی میں پرونا ممکن نہ ہوسکے گا۔

امریکا نے مغربی یورپ کو معاشی اور عسکری اعتبار سے مضبوط بنانے پر توجہ دی۔ بڑے پیمانے کی پیداوار اور صَرف ممکن بنانے کے لیے ایسا کرنا لازم تھا۔ اس کے لیے امریکی وزیر ِ خارجہ جارج سی مارشل نے جون 1947 میں وسطی اور مغربی یورپ کی مکمل تعمیر ِ نو کی خاطر مارشل پلان کا اعلان کیا۔ اِس کے مقابل سوویت یونین کے سربراہ جوزف اسٹالن نے اپنے زیر ِ اثر مشرقی یورپ کی تعمیر ِ نو کے لیے مولوتوف پلان متعارف کرایا۔ مارشل پلان کے نتیجے میں امریکا کے پرائیویٹ صنعتی اداروں کو بھی پنپنے کا موقع ملا۔ اس بار امریکا نے اپنی پوری قوت بروئے کار لانے پر توجہ دی اور یورپ سے کئی قدم آگے رہتے ہوئے نیا عالمی نظام قائم کرنے میں کامیاب رہا۔

1950 کے شُومین پلان اور دی یورپین کول اینڈ اسٹیل کمیونٹی (ای سی ایس سی) کے روحِ رواں ژاں مونیٹ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ای سی ایس سی نے یورپ کو ایک لڑی میں پرونے کے حوالے سے 1957 کی روم ٹریٹی کی راہ ہموار کی۔ اِس دوران امریکا یورپ کے سرمایہ داروں کو فری مارکیٹ میں کُھل کر کردار ادا کرنے پر مائل کرنے میں مصروف رہا۔ یورپی معاشی قوتیں کُھلے بازار میں مقابلے سے بالعموم گریزاں رہا کرتی تھیں۔ یورپ کو اداروں کی سطح پر ذہن تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔ نیا آجرانہ نظام ناگزیر تھا۔ امریکا نے اس حوالے سے مزاحمت سے نپٹنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ سب کچھ راتوں رات ہوا نہ امریکا نے ہر مخالف قوت کو روندنے کو ترجیح دی۔ امریکا جانتا تھا کہ سوال معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست اور ثقافت کی تبدیلی کا بھی تھا۔ وقت تو لگنا ہی تھا۔

اسٹوڈ بیکر کے سابق صدر پال ہافمین نے یورپ کو نئے عالمی نظام میں سمونے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مارشل پلان کے منتظم کی حیثیت سے پال ہافمین نے یورپ کے مینیجرز، ٹریڈ یونین رہنماؤں، سیاست دانوں اور سول سرونٹس کو امریکا بلایا تاکہ وہ پیداوار، آجر مزدور تعلقات اور نظامِ صرف کا خود جائزہ لیں۔ پال ہافمین 1950 میں فورڈ فاؤنڈیشن کے صدر منتخب ہوئے اور کاروباری و ثقافتی وفود کے تبادلے کی پالیسی جاری رکھی۔ انہوں نے یورپی اور دیگر بین الاقوامی پروگراموں کی فنڈنگ کی جس کا بنیادی مقصد (جوزف نائے کے الفاظ میں) امریکا کی ’’نرم قوت‘‘ کو دنیا بھر میں متعارف کرانا اور پھیلانا تھا۔

پال ہافمین کی کوششوں سے یورپی معیشتوں میں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ثقافتی سطح پر امریکا کی مخالفت کا رجحان دھیرے دھیرے کمزور پڑتا چلا گیا۔ ایسے میں یہ بات حیرت انگیز نہ تھی کہ یورپ کی بھاری صنعتوں کے بہت سے معمر ایگزیکٹیو جواں سال مینیجرز کے مقابلے میں امریکی نظریات کو قبول کرنے کے حوالے سے مزاحمت کرتے رہے۔ وہ امریکا سے بے خبر اور انجان نہیں تھے۔ وہ بھی امریکا کے دورے کرچکے تھے اور اپنے اپنے ملک میں کاروبار کی اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں امریکا کے حوالے سے بہت کچھ پڑھ چکے تھے۔ بعد کے عشروں میں یورپ میں یہ سوال بھی اٹھا کہ امریکا ہر معاملے ’’امریکیت‘‘ کی کوشش کر رہا ہے۔ بہر کیف، بڑے پیمانے پر پیداوار کے نظام اور کنزیرمر اِزم کو اپنانے سے یورپ میں مضبوط جمہوریتوں کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور سَرکش آمریت کی راہ مسدود ہوئی۔ اب پھر یورپ کو relevant بنانے کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ کام بھی امریکا ہی کو کرنا ہے۔ یورپ ’’نرم قوت‘‘ کی راہ ترک کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف روس، مارشل پلان کے تجربے سے بہت کچھ سیکھتے ہوئے، بھرپور ’’سخت طاقت‘‘ کے ذریعے یورپ کو سوچ بدلنے اور امریکا سے راہیں الگ کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

(www.theglobalist.com کے لیے یہ مضمون Volker Berghahn نے لکھا ہے جو کولمبیا یونیورسٹی میں تاریخ کے ایمیریٹس پروفیسر ہیں۔)