گرمی کی لذتیں اور بجلی کی حکایتیں

451

گرمی اپنے عروج پر ہے، بعض علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد بھی عبور کر گیا ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی آگ برسانے لگتا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی معمول کے مطابق جاری ہے۔ ایسے میں ہمیں بچپن کا وہ زمانہ یاد آتا ہے جب ہمارے گھر میں، ہمارے گھر میں کیا بہت سے گھروں میں بجلی نام کی کوئی شے نہیں ہوتی تھی۔ ہم لوگ گرمی سے بچنے کے لیے رات چھت پر سوتے اور ٹھنڈی ہوا کا لطف اُٹھاتے۔ ممتاز شاعر احسان دانش مرحوم نے اپنی سوانح حیات ’’جہانِ دانش‘‘ میں ان چھتوں کا بڑا فاسقانہ منظر کھینچا ہے جہاں گرمیوں کی راتوں میں ہندو خواتین محوِ استراحت ہوتی تھیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کی والدہ انہیں رات گئے چھت پر سونے اور پُو پھٹنے سے قبل نیچے اُتر آنے کی تلقین کرتیں تاکہ پڑوس میں چھت پر سوئی ہندو خواتین کی بے پردگی نہ ہو۔ خیر یہ تقسیم ہندوستان سے پہلے کی باتیں ہیں۔ ہم لوگ ہجرت کرکے لاہور آئے تو لاہور کے مضافاتی علاقوں میں بھی بجلی خال خال گھروں میں تھی۔ ہم لوگ رات کو گھر روشن رکھنے کے لیے لالٹین جلاتے اور گرمیوں میں چھت پر سوتے تھے۔ چھتوں کے علاوہ گلی میں چارپائی بچھا کر سونے کا رواج بھی تھا۔ البتہ گرمیوں کی دوپہر زیادہ قہرناک اور لُو آلود ہوا کرتی تھی۔ ایسے میں بچے یا بوڑھے سبھی گھروں میں بند ہوجانے پر مجبور ہوجاتے۔ تپتی دوپہر گزارنے کے لیے گھر کا سب سے بڑا کمرہ مخصوص کردیا جاتا جس کی نشیبی چھت میں موٹے کپڑے کا ایک بڑا سا پنکھا لٹک رہا ہوتا۔ اس پنکھے کے ساتھ ایک ڈوری ہوتی تھی جسے کمرے میں لیٹا ہوا ایک فرد اپنے پائوں کے انگوٹھے سے باندھ کر کھینچتا اور کمرے کے ٹھنڈے فرش پر لیٹے ہوئے سب افراد اس کرشماتی پنکھے کی ٹھنڈی ہوا کا لطف اُٹھاتے تھے۔

خیر وہ زمانہ گزر گیا۔ زمانہ گزرتے کیا دیر لگتی ہے۔ آدمی جب ساٹھ ستر یا سو سال کی عمر گزار کے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگا تو اس سے پوچھا جائے گا کہ دُنیا میں اس نے کتنا وقت گزارا؟ وہ جواب دے گا ’’ایک دن یا دن کا کچھ حصہ‘‘۔ اس میں شک بھی کیا ہے خود دُنیا میں آدمی جب بچپن اور جوانی گزار کے بڑھاپے کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے یہ سب پہر دوپہر کی بات لگتی ہے۔ بہرکیف لالٹین کا زمانہ گزر گیا اب بجلی کے بلب اور جگمگاتی روشنیوں کا زمانہ ہے۔ بجلی نے ہماری اعصابی قوت کو اتنا مضمحل کردیا ہے کہ ہم اس کے بغیر نہ دن میں گزارا کرسکتے ہیں نہ رات میں۔ دن میں ہمیں پنکھے کی ہوا درکار ہے اور رات میں اندھیرا بھگانے کے لیے۔ یہ دونوں چیزیں بجلی کے بغیر ممکن نہیں ہیں لیکن ہماری ضرورتوں اور حاجتوں کا دائرہ تو کہیں زیادہ پھیلا ہوا ہے اور ان سب کا تعلق بجلی سے ہے۔ بجلی ہے کہ محبوب کے وعدے کی طرح جاتی ہے تو آنے کا نام نہیں لیتی۔ شہروں میں تو پھر بھی غنیمت ہے کہ دو چار گھنٹے بعد آجاتی ہے۔ اہل دیہات سے پوچھیے جہاں یہ دورانیہ دنوں پر محیط ہوتا ہے اور جب بجلی آتی ہے تو ہر طرف خوشی سے یہ نعرہ گونجنے لگتا ہے۔

’’مرے گائوں میں بجلی آئی ہے‘‘

اس بجلی کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ دروغ برگردن راوی غریبوں کو عورتوں کے زیور بیچ کر بل ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق آزاد کشمیر والے بجلی کے بلوں سے تنگ آکر لڑائی، مارکٹائی پر تُل گئے تھے۔ انہوں نے بجلی کے بل جلا دیے تھے اور اپنی زمینوں سے بجلی کے کھمبے اکھاڑ پھینکے تھے۔ آخر ان کی جدوجہد بار آور ثابت ہوئی اور اب وہ 3 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کے بل ادا کررہے ہیں جبکہ اہل پاکستان کو یہی بجلی کم و بیش 50 روپے فی یونٹ کے حساب سے مل رہی ہے۔ سچ کہا ہے کسی نے ’’ہمت ِ مرداں مددِ خدا‘‘ پاکستانی بھی ہمت کریں تو خدا کی مدد ان کے شامل حال ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف تلملائے گا تو بہت لیکن اسے بھی پاکستانیوں کو 3 روپے فی یونٹ بجلی دینی پڑے گی۔

خیر چھوڑیے اس بحث کو، ہماری تو گرمی نے مت مار رکھی ہے لیکن قربان جائیے قدرت کے جس نے گرمی میں آدمی کے حواس کو ٹھکانے رکھنے کے لیے پھلوں کی صورت میں لذتوں کا ڈھیر لگا دیا ہے۔ جتنے پھل گرمی میں آتے ہیں شاید ہی کسی اور موسم میں آتے ہوں، ایک سے ایک شیریں اور لذیز، گرمی شروع ہوتے لوکاٹ بازار میں آتا ہے اس کے ہر دانے میں دو تین موٹے موٹے بیج ہوتے ہیں لیکن گودا کھٹا میٹھا اور اتنا مزیدار ہوتا ہے کہ کھاتے جائو جی نہیں بھرتا۔ گرمی زیادہ پڑی تو وہ چھپ دکھا کر غائب۔ پھر تربوز اور خربوزے میدان میں آ موجود ہوتے ہیں، تربوز کے کیا کہنے اسے شربت روح افزا سے بھرا مٹکا سمجھ لیجیے اس کی ایک ٹھنڈی قاش منہ میں رکھتے ہی منہ شربت سے بھر جاتا ہے اور آنکھوں میں تراوٹ آجاتی ہے۔ یہ شاید سب سے سستا پھل ہے جو گرمی کے ماروں کو دستیاب ہے۔ کبھی یہ بغیر تولے فروخت ہوتا تھا اب تول کے بِکتا ہے۔ رہا خربوزہ اگر میٹھا ہو تو کیا کہنے، مصری کا مزا آتا ہے، پھیکا اور ٹھنڈا ہو تو وہ بھی سواد دے جاتا ہے۔ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے یہ بات البتہ سمجھنے والی ہے۔ خوبانی، آلو بخارا، آلوچہ، فالسہ۔ یہ سب گرمی کے ستائے لوگوں کے لیے قدرت کے بیش بہا تحفے ہیں تاہم ان پھلوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے جیب بھی بھاری ہونی چاہیے۔ اب آخر میں آم کا ذکر جو پھلوں کا بادشاہ ہے اور جس کا قصیدہ کسی اور نے نہیں غالبؔ نے پڑھا ہے۔

مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے

آم مئی کے آخر میں بازار میں آجاتا ہے اور کم و بیش چار مہینے تک پھلوں کی دنیا میں راج کرتا ہے۔ آم کے ایک رسیا نے اس کی ساڑھے تین سو اقسام گنوائی ہیں۔ ہم تو مرزا غالبؔ کی پیروی میں بس اتنا جانتے ہیں کہ آم میٹھے ہوں اور ڈھیر سارے ہوں۔