ایک طالب علم کے دو سوالات

522

جامعہ خیر المعاد ملتان سے حافظ عبدالقدیر باروی نے پوچھا ہے: ’’دورِ حاضر میں کفار اور بدھ مذہب عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں، حالانکہ وہ حق پر نہیں ہیں۔ اس کے برعکس مسلمان حق پر ہیں، مگر وہ آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں، حق تو یہ ہے: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مسلمان مستفید ہوں اور کفار محروم ہوں، لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہورہا ہے۔ دوسرا سوال کفار ومشرکین کی اولاد کے بارے میں ہے کہ اگر وہ کسی کافر گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے، جواباً عرض ہے:

اللہ تعالیٰ کے افعال واوامر دو طرح کے ہیں: تکوینی امور، جن میں بندے کا کوئی اختیار یا انتخاب نہیں ہے، جیسے: انسان کی جسامت، قامت، صورت،رنگت، جسمانی ودماغی سلامتی یا اعضاء وعقل میں خلل ونَقص وغیرہ۔ تکوینی امور چونکہ بندے کے اختیار میں نہیں ہوتے، اس لیے آخرت میں نَجات کا مدار تکوینی عیوب یا خوبیوں کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ تشریعی احکام کی بنیاد پر ہوگا۔ لہٰذا کسی کو اس کے تکوینی نقائص کی بنا پر ملامت نہیں کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ کسی نفس ِ (انسانی) کو اُس کی طاقت سے بڑھ کر احکام کا جوابدہ نہیں بناتا‘‘۔ (البقرہ: 286) باقی رہا یہ سوال کہ کسی کو صاحب ِ حسن وجمال اورکسی کو قبیح صورت کیوں بنایا، یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت پر منحصر ہے، اس میں بندے کا کوئی اختیار ہے اور نہ اس پراعتراض کرنے کی کوئی گنجائش ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’وہ جو کچھ کرتا ہے، اُس کے لیے وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے اور سب اُس کو جوابدہ ہیں‘‘، (الانبیاء: 23) ’’عرشِ عظیم کا مالک ہے، جو چاہے، کر گزرنے والا ہے‘‘، (البروج: 15-16) یعنی اُس کے ارادے کے نافذ ہونے میں کائنات کی کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

اگر اللہ کی حکمت کا تقاضا ہوتا تو سب کو اپنا مطیع وفرماں بردار بنا دیتا اور کوئی بھی نافرمان نہ ہوتا، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک امت بنا دیتا، لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے اور ظالموں کے لیے کوئی کارساز اور مددگار نہیں ہوگا‘‘، (الشوریٰ : 8) ’’اوراگر تمہارا ربّ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنادیتا (لیکن) وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے، سوائے اُن کے جن پر آپ کا ربّ رحم فرمائے‘‘۔ (ہود: 118-119) اسی طرح کسی کے مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے یا کسی کافر ومشرک کے گھر انے میں پیدا ہونے پر اُخروی جزا وسزا کا مدار نہیں ہوگا، بلکہ جزا وسزا کا مدار انسان کے اختیاری عقائد واعمال پر ہوگا۔ غیرمسلموں کی نابالغ اولاد یا فاتر العقل لوگ اللہ تعالیٰ کے تشریعی احکام کے مکلّف نہیں ہیں، البتہ کفار کی نابالغ ذرّیت کے بارے میں چند اقوال ہیں:

اُن کا انجام اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، وہ چاہے تو ان پر رحم فرمائے اور چاہے تو انہیں عذاب دے، یہ سب اُس کا عدل ہوگا، حدیث پاک میں ہے: ’’اللہ بہتر جانتا ہے کہ (بالغ ہونے کی صورت میں) وہ کیا کرنے والے تھے، یعنی اللہ کے علم پر موقوف ہوگا‘‘، وہ جنت وجہنم کے درمیانی مقام ’’اَعراف‘‘ میں ہوں گے، وہ اہل ِ جنت کے خدام میں سے ہوں گے، اپنے آباء کے تابع ہوں گے، اُن کا آخرت میں ایک تشریعی وتکلیفی امتحان ہوگا اور اُس کی بنیاد پر ان کے جنتی اور جہنمی ہونے کا فیصلہ ہوگا۔ الغرض یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں، وہ مالک ومختار ہے، ہمیں ان امور کے بارے میں قطعی اور یقینی طور پر کچھ طے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

دنیا میں کفار ومشرکین کا ناز ونِعَم میں رہنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُن کی محبوبیت یا فضیلت کی دلیل نہیں ہے، یہ اُن کے لیے ابتلاء و امتحان ہے، دنیا دارالعمل ہے، دارالجزاء نہیں ہے، البتہ دنیاوی اعتبار سے انسانوں کے بعض ارادی واختیاری اعمال پر احکام مرتب ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ’’اور آخرت کا یہ گھر ہم اُن کے لیے مقدر فرمائیں گے جو زمین میں سرکشی کرتے ہیں اور نہ فساد برپا کرتے ہیں اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے‘‘، (القصص: 83) ’’اور دنیا کی یہ زندگی توصرف کھیل تماشا ہے اور درحقیقت آخرت کا گھر ہی (حقیقی اور ابدی) زندگی ہے اگر وہ (اس حقیقت کو) جان لیتے‘‘، (العنکبوت: 64) رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اگر دنیا کی (حقیقی قدر وقیمت) مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی، تواللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس سے ایک گھونٹ جتنا بھی سیراب نہ فرماتا‘‘۔ (ترمذی)

قرآنِ کریم نے دُنیوی منافع، راحتوں اور عشرتوں کو’’ نفعِ عاجِل‘‘ (فوری فائدے) سے تعبیر فرمایا ہے اور آخرت کی اَبدی اور دائمی نعمتوں کو ’’نفعِ آجِل‘‘ (مؤخر) سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ہرگز نہیں! بلکہ تم جلدی حاصل ہونے والے (منافع) کو چاہتے ہو اور آخرت (کی دیرپا نعمتوں) کو چھوڑ دیتے ہو‘‘۔ (القیامہ: 22-23)

پس اصل امتحان یہی ہے: سامنے کی چمک دمک پر انسان فریفتہ ہوجاتا ہے، آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں، عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں اور آخرت کی ابدی و دائمی نعمتیں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں، وہ فوری راحتوں کا حریص بن جاتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ اُن کے لیے دل ہوتے، جن سے وہ (اشیاء کی حقیقتوں کو) سمجھتے یا اُن کے لیے کان ہوتے، جن سے وہ (حق کی آواز کو) سنتے، درحقیقت بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں (دھڑکتے )ہیں‘‘۔ (الحج: 46)

الغرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب صلاحیتیں ودیعت فرمارکھی ہیں، لیکن انسان ان کو مثبت اور دیرپا مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے، حق اور حقیقت سے گریز کی راہیں تلاش کرتا ہے، مکڑی کے جالے کی طرح کمزور دلیلوں کا سہارا لیتا ہے اور سامنے کی حقیقتیں اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ہم نے جہنم (کا ایندھن بننے) کے لیے بہت سے جِنّ اور انسان پیدا کیے ہیں، اُن کے لیے (سمجھنے کو) دل ہیں، مگر وہ اُن سے سمجھتے نہیں اور ان کے لیے آنکھیں ہیں، مگر وہ (نگاہِ عبرت سے) دیکھتے نہیں اور ان کے لیے کان ہیں، مگر وہ اُن سے (حق کی آواز کو) سنتے نہیں، وہ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی بدتر، (درحقیقت) یہی لوگ غافل ہیں‘‘۔ (الاعراف: 179) پس یہ دنیا دارالامتحان ہے اور امتحان سے گزرنا ہوگا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ انہیں محض یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لائے، چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا‘‘، (العنکبوت: 2) ’’کیا تم نے یہ گمان کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جائو گے، اللہ سچا بادشاہ (اس سے) کہیں بلند ہے (کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی ہو)‘‘۔ (المومنون: 115-116)

اگر کوئی کافر کے گھر پیدا ہوا یا لڑکپن گزارا اور اُسے فاسد عقائد کی تعلیم دی گئی ہے تو عاقل وبالغ ہونے کے بعد اگر وہ اپنے اختیار تمیزی سے ان عقائد پر قائم رہتا ہے تو یقینا جوابدہ ہوگا، لیکن اگر وہ حق پر مطلع ہونے کے بعد توبہ کر کے اسلام قبول کرلیتا ہے تو ماضی کی بدعقیدگی اور بدعملی کے لیے وہ جوابدہ نہیں ہوگا، ایسا ہی سوال سیدنا عمرو بن عاص نے اسلام قبول کرتے وقت رسول اللہؐ سے کیا تھا: میری ماضی کی بد اعمالیوں کا کیا ہوگا تو آپؐ نے فرمایا: ’’اسلام ماضی (کی بدعقیدگی وبداعمالی) کے اثرات کو مٹادیتا ہے‘‘۔ (مسلم: 121)

اسلام میں آخرت کی نَجات کا مدار عقائد واعمالِ صحیحہ پر ہے، دنیا میں اقوامِ عالَم کے درمیان مقامِ افتخار پانے کے لیے الگ معیارات ہیں اور ان پر پورا اترے بغیر مسلمانوں کا یہ توقع رکھنا کہ وہ دنیا پر برتری حاصل کرلیں گے، خام خیالی ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی وعدہ نہیں فرمایا، ورنہ رسول اللہؐ کو میدانِ جنگ میں نہ اترنا پڑتا، زخمی نہ ہونا پڑتا، اپنے اقارب اور جاں نثاروں کی لاشیں نہ اٹھانا پڑتیں، آپؐ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا محبوب اور کون ہوسکتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم کے عہد ِ خلافت میں جب مسلمان معیار پر پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے اُس دور کی دو سپر پاورز کو اسلام کے قدموں میں ڈھیر کردیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے سعی کی‘‘، (النجم: 39) البتہ یہ ضرور ہے کہ جب مسلمان اپنا فرض ادا کرلیں تو اللہ کی نصرت شامل ِ حال ہوجاتی ہے، تاریخ نبوت ہمیں یہی بتاتی ہے۔ خود ساختہ دعوے اُس عہد کے یہود ونصاریٰ نے کیے تھے: ’’ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں‘‘، (المائدہ: 18) یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔