روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو

503

ایوب خان نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو پاکستان کا غدار قرار دیا۔ یہی نہیں بلکہ ایوبی الیکشن کے دوران موجودہ پاکستان کے اِس وقت کے سب سے بڑے صوبے میں کتیاؤں کے گلے میں فاطمہ جناح کی تصاویر لگا کر گلی گلی گھمایا گیا لیکن نہ تو اُس وقت کسی نے اس پر کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی آج تک اس عمل پر کسی نے معافی مانگی۔ ایوب خان نے اپنے بیٹے گوہر ایوب کے ذریعہ کراچی کے اس وقت کے لٹے پٹے انسانوں پر باقائدہ لشکر کشی کی لیکن پاکستان آج تک اس پر خاموش رہ کر یہ گواہی دیتا چلا آ رہا ہے کہ یہ لوگ شاید ہیں ہی اسی قابل کہ ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا جائے۔ کھوکھرا پار کی سر حد کو بند کرنے کے جواز میں کہا گیا کہ یہاں سے بھارتی ایجنٹوں کے آنے جانے کا خدشہ ہے لیکن واہگہ بارڈر کے اُس پار سے آج تک پاکستان میں فرشتوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ پاکستان کی شمالی سرحدوں کی آمد و رفت کو یہ کہہ کر مستقل سرحدیں نہیں قرار دیا گیا کہ دونوں ملکوں میں ’’خونی رشتے‘‘ کا تعلق ہے لیکن کھوکھراپار کی سرحدوں کی اُس جانب خونی نہیں ’’خونخوار‘‘ رشتہ ہے۔

ایوبی دور کے بعد بھٹو دور کا آغاز ہوا تو وہ بھی ایک عجب خونیں دور تھا۔ دلائی کیمپوں کا قیام، مخالف سیاستدان ہوں، صحافی ہوں، شعرا ہوں، ادیب ہوں یا سیاسی پارٹیوں کے عام سے کارکنان، سارے کے سارے حکومت ِ وقت کے نشانے پر رہے۔ ان ساروں کے خون سے یا تو سڑکیں رنگین ہوتی رہیں یا جیلوں کی رونقوں کو بڑھایا جاتا رہا۔

ضیا الحق کا دور اس سے کچھ مختلف تصویر پیش کرتا دکھائی نہیں دیا۔ فرق فقط یہ تھا کہ معتوب نیک شریف قرار دے دیے گئے اور جو اس وقت کے صالح اور فرشتے تھے سب کو لعین قرار دینے پر زور دیا جا رہا تھا۔ روز ٹکٹکیاں باندھی جاتی تھیں اور ہر روز کسی نہ کسی کو پابند سلاسل کیا جاتا تھا۔

پھر ایک اور ہی عجیب و غریب دور کا آغاز ہوا۔ الذوالفقار وجود میں آئی۔ اس دور میں ایک ہوائی جہاز کے ہائی جیک کرنے سے لیکر ملک کے کونے کونے میں جرائم کا جیسے دریا امڈ آیا۔ پھر ہوا یہ کہ پاکستان میں ہونے والے ہر جرم کی ایف آئی آر والی فائل پر ’’الذوالفقار‘‘ لکھ کر بند کر دیا جاتا رہا۔ پھر دور ’’موساد اور خاد‘‘ کا چلا اور جرائم کی فائلیں ’’موساد یا خاد‘‘ لکھ کر بند کی جاتی رہیں۔ اس کے بعد ’’را‘‘ نے ان سب کی جگہ لے لی، پولیس و انتظامیہ کی ایک بار پھر چاندی ہو گئی اور ہر جرم کی فائل پر را لکھ کر بند کیا جاتا رہا۔ جب یہ ادوار ختم ہوئے تو ’’ایم کیو ایم‘‘ کا دور شروع ہوا اور پھر کراچی کا ہر جرم ان کے سر ڈال کر فائلوں کا منہ بند کیا جاتا رہا۔ ابھی ایم کیو ایم کا باب بند بھی نہیں ہوا تھا کہ ’’طالبان‘‘ نے پورے خطے میں ایک طوفان برپا کرکے پولیس اور انتظامیہ کے لیے آسانیاں فراہم کرنا شروع کر دیں اور یوں کراچی و حیدرآباد کے سارے جرائم ایم کیو ایم کے کھاتے میں ڈالے جاتے رہے اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں قتل و غارت گری کے سارے واقعات کو طالبان کے سر باندھا جاتا رہا۔ مختصر یہ کہ کسی بھی نوعیت کے جرم کے اصل مجروں کا کھوج لگانے کی کسی بھی ادارے نے کوشش نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے پاکستان میں مجرموں کا نیٹ ورک مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا اور آج یہ عالم ہے کہ کسی کو بھی اس کے گھر کے دروازے پر، گھر کے اندر گھس کر، بھرے پرے بازار میں یا کسی بھی محفل میں لوٹ لینا، بے عزت کر دینا یہاں تک کے قتل کرکے ہنسے مسکراتے چلے جانا جیسے بچوں کا کھیل بن کر رہ گیا۔

آج جسارت میں شائع ہونے والی خبر پڑھ کر مجھے امیر جماعت ِ اسلامی کراچی، منعم ظفر کے اس بیان پر بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ کورنگی کے علاقے ناصر جمپ کے قریب ڈکیتی کے دوران مزاحمت میں فائرنگ سے 20 سالہ نوجوان عبدالباسط کے قتل اور ڈیفنس کے علاقے میں صنعت کار آصف سلیمان بلوانی کو دن دہاڑے مار دیا گیا ہے جس پر جماعت شدید مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت، محکمہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکے ہیں، شہری ایک جانب ڈکیتی کی وارداتوں سے پریشان ہیں تو دوسری جانب شہر میں ایک بار پھر سے ٹارگٹ کلنگ کے وارداتیں شروع ہوچکی ہیں۔ مسلح ڈاکو کراچی کے نوجوانوں کو قتل کرتے پھررہے ہیں جس پر جماعت اسلای شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔

میں کبھی یہ نہیں کہوں گا کہ سیاسی پارٹیوں میں جرائم پیشہ افراد پناہ نہیں لیا کرتے۔ شاید ہی کوئی سیاسی و مذہبی جماعت ایسی ہو جن میں جرائم پیشہ یا متشدد افراد کا ہجوم نہ ہو۔ میں نے جن جن پارٹیوں کا نام لیا ہے یہ سب فرشتوں کی پارٹیاں نہ تو تھیں اور نہ ہی ہیں۔ اس کے باوجود میں یہ ضرور کہوں گا کہ پولیس، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والوں کا کام ہوتا ہی یہ ہے کہ وہ جرائم کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دیں نہ کہ ان میں شامل جرائم پیشہ افراد کو جواز بنا کر، سیاسی میدان ہی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں۔ اگر ادارے جرائم کو ملکی و غیر ملکی تنظیموں اور ایجنسیوں کے سر ڈال کر فائلیں بند کرنے کے بجائے اصل مجرموں تک پہنچنے کی کوشش کرتے اور سیاسی دکانوں کو چمکانے والے ہر مرتبہ تالیاں بجانے کے بجائے اصل حقائق کو سامنے لانے کا مطالبہ کرتے رہتے تو جو کچھ اب دیکھنے میں آ رہا ہے، کبھی دیکھنے میں نہیں آتا۔ منیر نیازی نے کیا سچی بات کہی ہے کہ

روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری