قربانی اللہ کی رضا کے حصول کے لیے ایک بڑی عبادت ہے۔ یہ عمل سنت ابراہیمی ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کریم اور نبی کریمؐ کی احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔
قربانی کے بارے میں قرآنی آیات: سور الکوثر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: پس اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ ریا کاری سے قربانی کو پاک رکھنے کے لیے سورۃ الحج میں ارشاد ربانی ہے کہ: اللہ کو نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ ابراہیمؑ کی قربانی کے سلسلے میں سورہ الصافات میں آیا ہے۔ اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا۔
احادیث میں قربانی کے بارے میں ہے کہ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ: ’’رسول اللہؐ دو سینگ والے چتکبرے مینڈھے ذبح کرتے تھے اور بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے‘‘۔ (بخاری) سیدنا زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تمہارے والد ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ہمیں اس میں کیا ثواب ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی‘‘۔ (جامع الترمذی) سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے، اور یقینا قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے نزدیک مقام پا لیتا ہے، لہٰذا اسے خوش دلی سے کرو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ اللہ کے نزدیک گوشت اور خون نہیں تقویٰ اہم ہے۔ ریاکاری بڑی سے بڑی عبادت کو ضائع کردیتی ہے۔ اس لیے اگر ربّ کی رضا چاہیے تو ریا سے بچنا چاہیے۔
تقویٰ خوف خدا اور ربّ سے گہری قلبی محبت کی ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان کے عمل کا محور ربّ کی رضا کے سوا کچھ اور ہوتا ہی نہیں۔ قربانی جیسی عظیم عبادت اگر ہمارے اندر تقویٰ کی یہ کیفیت پیدا نہیں کرتی تو پھر جانور ذبح کرنے اور خون بہانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ قربانی کا جانور خریدتے وقت اور ذبیحہ کرتے وقت ربّ کا قرب حاصل کرنا واحد مقصود ہونا چاہیے نہ کہ نمود و نمائش۔ اخلاص کے ساتھ قربان کیا گیا کم قیمت جانور بھی بہت اجر کا باعث ہے جبکہ ریاکاری کے لیے ذبح کیا گیا لاکھوں کا جانور اجر کے بجائے وبال بن جاتا ہے۔قربانی کا ایک اہم درس یہ بھی ہے کہ ربّ کی رضا کے لیے ہمیں اپنی خواہشات کی بھی قربانی دینی چاہیے۔ اس کے لیے پہلے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ہماری کون سی خواہشات ہیں جو ربّ کی بندگی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان خواہشات کی قربانی ہمیں ربّ سے قریب کرے گی اور نفس اور شیطان کی غلامی سے دور۔