جاسوسی ناول نگاری کے اس دور میں جب دور دور تک کوئی بھی ایسا مستند ناول نگار دکھائی نہ دیتا ہو جس کو پڑھ کر جاسوسی ادب کے پیاسے اپنی پیاس بجھا سکیں، صمیم الاسلام یقینا امید کی ایک کرن ہی نہیں بلکہ کسی آفتاب کی مانند جاسوسیت کے مشرقی افق سے ابھرتے نظر آ رہے ہیں۔ میں نے جب ان کے ناول کے مسودے کا مطالعہ کیا تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ نوجوان اپنے ارگرد کے ماحول پر اتنی گہری نظر رکھتا ہے جیسے وہ اسی ماحول کا ایک حصہ رہا ہو۔ وہ ناولیں جن کے واقعات ہماری زندگی میں بہت عام ہوں، ان پر لکھنے میں شاید اتنی مشکلات نہ پیش آتی ہوں جو کسی جاسوسی ناول نگار کو پیش آتی ہیں۔ گھریلو یا معاشرے میں جنم لینے والی کہانیاں یا دل موہ لینے والے، خوشی یا غمی کے واقعات کم و بیش ہر فرد کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں اسی لیے دیکھنے اور سننے والا جب ایسے واقعات دیکھتا، پڑھتا یا سنتا ہے تو وہ اس سارے دکھ یا سکھ کو جیسے اپنا ہی دکھ اور سکھ سمجھ رہا ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ اس ماحول کا ایسا حصہ بن جاتا ہے کہ پڑھتے پڑھتے کبھی ہنسنے اور کبھی اشک بہانے لگتا ہے لیکن جاسوسی کہانی میں سارے واقعات وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق عام انسان کی زندگی سے ہوتا ہی نہیں اور نہ ہی یہ کسی گھر یا کسی دل کی کہانی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے برِصغیر میں اتنے جاسوسی ناول لکھنے والے آج تک پیدا نہیں ہو سکے جن کو انگلیوں پر ہی شمار کیا جا سکے۔
ہندوستان میں جاسوسی ناول نگاری میں اگر کسی نے نام پایا تو ان میں ’’اکرم الہ بادی‘‘ کا نام سامنے آتا ہے جبکہ پاکستان میں جو مقبولیت ’’ابن ِ صفی‘‘ نے پائی وہ کسی کے حصے میں نہ آ سکی۔ ان ہی کے دور میں کئی اور بھی نام سامنے آئے لیکن وہ جن جن کرداروں کو لے کر چلے یا ابن ِ صفی کے کرداروں پر کردار نگاری کی، وہ کرداروں کو اس انداز میں نہ نبھا سکے جیسا کہ ان کرداروں کو نبھائے جانے کا حق تھا۔ الغرض جاسوسی نگاری ایک ایسا فن ہے جو لگتا تھا کہ ابن ِ صفی کے بعد پاکستان میں دم توڑ چکا ہے، صمیم الاسلام کے ناول ’’آسیب زدہ پہاڑ‘‘ پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جاسوسی ناول نگاری ایک مرتبہ پھر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایک نیا جنم لے رہی ہے اور اگر انہوں نے اپنی کمر ِ ہمت کو اسی طرح کسے رکھا تو جاسوسی ادب پڑھنے والے شائقین کچھ اور نئے کرداروں کو جاسوسی افق پر چمکتا دمکتا ضرور دیکھیں گے۔
آسیب زدہ پہاڑ صرف ایک جاسوسی ناول ہی نہیں بلکہ پاکستان کے وہ علاقے جو اب تک عام پاکستانیوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، ان کے مناظر کو اس طرح دیکھتا محسوس کر سکیں گے جیسے وہ خود اپنی حقیقی آنکھوں سے سارے مناظر دیکھ رہے ہوں۔
کسی بھی لکھاری کا یہ کمال ہوتا ہے کہ جب وہ کسی بھی جگہ کی منظر کشی کر رہا ہو تو وہ اپنے الفاظ سے ایسی تصویر کشی کرے کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو اسی ماحول میں لے جانے پر مجبور ہو جائے۔ یہ خوبی صمیم الاسلام میں کمال درجے کی موجود ہے کہ وہ قاری کو ان ہی منظروں کے درمیان کھینچ لاتے ہیں جس منظر کی منظر کشی کی جا رہی ہو۔ پھر یہی نہیں، اس ناول کے ذریعے وہ بلوچستان کے زخموں کی طرح رستے لیکن حقیقی مسائل کو بھی کشید کر کے لوگوں کے سامنے لانے میں کامیاب نظر آتے جو پاکستان کے ان علاقوں کے عوام کو پاکستان سے دور لے جانے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن خوبی یہ ہے کہ وہ اس ناول میں ایسے حالات سے باہر نکلنے کے کا حل بھی بھر پور طریقے سے پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک تمام تر خرابیوں کے باوجود بھی حل صرف مل کر رہنے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
بظاہر جاسوسی ایک نہایت سنجیدہ، سخت گیر اور مار دھاڑ سے بھر پور کام ہے لیکن صمیم الاسلام نے اس سارے فلسفے کی نفی کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ ایک ایسا شعبہ جس میں سخت گیری جزوِ لاینفک تصور کی جانے لگی ہے، اس کو بھی خوش طبعی کے ساتھ نبھایا جا سکتا ہے چنانچہ سارے کرداروں کے ذریعے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ حالات خواہ کسی بھی نوعیت کے کیوں نہ ہوں، ان سے ہنستے کھیلتے بھی گزرا جا سکتا ہے۔
نہایت شائستہ و شستہ مکالمے اس ناول کی ایک ایسی خوبی ہے جو عام طور پر جاسوسی ادب میں بہت مشکل سے ہی نظر آتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کوئی ایک مکالمہ بھی ایسا نہیں جس میں سوال یا جواب ضرورت سے ایک حرف بھی زیادہ دکھائی دیتا ہو۔ ہر سوال کے جواب میں جو بھی انداز اختیار کیا گیا ہے وہ نہایت جامع ہے جس کے بعد مزید ایک حرف بڑھانے کی گنجائش کہیں سے کہیں تک دکھائی نہیں دیتی۔
جاسوسی ناول نگاری میں سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے اس میں قدم قدم پر ’’تجسس‘‘ یعنی سسپنس پایا جاتا ہو۔ آخری وقت تک یہ پتا نہ چل سکے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یا باالفاظِ دیگر یہ علم ہی نہ ہو سکے کہ اصل مجرم آخر ہے کون۔ یہی وہ اعلیٰ ترین خوبی ہے جو آپ کو صمیم الاسلام کے ’’آسیب زدہ پہاڑ‘‘ میں نقطہ ٔ عروج پر نظر آئی گی۔ سارے ابواب ایک دوسرے سے بظاہر الگ الگ ہونے کے باوجود بھی آپس میں اس طرح مربوط ہیں کہ کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹے باب کو بھی کہانی سے باہر کر دیا جائے تو قاری کو لازماً ایک ایسا خلا نظر آئے گا جس کو پاٹنا بہر صورت لازم ہو جائے گا۔
جہاں آپ اس میں جاسوسیت کا ایک تسلسل دیکھیں گے وہیں آپ کو بلوچستان کے حالات اور وہاں کی تہذیب و معاشرت کو سمجھنے اور جن مسائل کا شکار وہاں کے عوام و خواص ہیں، اس کو سمجھنے کا بھی موقع ملے گا۔ مختصراً یہ کہ آسیب زدہ پہاڑ صرف ایک جاسوسی ناول ہی نہیں، ان علاقوں کے مسائل جان لینے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی ہے جس کے لیے میں صمیم الاسلام کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس ناول کے ذریعے بلوچستان کے حالات، مسائل، وہاں کی تہذیب و تمدن، پاکستان سے ان کی محبت کے ساتھ ساتھ شکایات اور مشکلات کو جس انداز میں پیش کیا وہ آنے والی نسل کے لیے ایک بہت بڑا سنگِ میل ثابت ہوگا جو آگے چل کر ان کی رہنمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنے گا۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ صمیم الاسلام کا زورِ قلم اور زیادہ کرے ۔ آمین۔