اس خبر سے مضمون کا آغاز کرتے ہیں۔ ’’پاکستان کے مقامی قرضوں میں 4ہزار 622 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔ مارچ تک مقامی قرض بڑھ کر 43ہزار 432 ارب روپے ہوگیا، ملک پر قرضوں کا بوجھ ساڑھے 6فی صد بڑھ کر 61ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا۔ رواں مالی سال کے آغاز پر پاکستان پر مقامی قرضوں کا حجم 38ہزار 809 ارب روپے تھا رواں مالی سال بیرونی قرضے 89ارب روپے کم ہو کر 21ہزار 941 ارب روپے ہو گئے حکومت کے ذمے بیرونی واجبات 6فی صد بڑھ کر 3ہزار 284 ارب روپے پر پہنچ گئے۔ آئی ایم ایف ڈیل سے مقامی و بیرونی قرضوں میں مزید اضافے کا امکان ہے‘‘۔
اب ایک اور دلچسپ خبر ملاحظہ فرمائیے۔ ’’صوبے کے خراب معاشی حالات، غربت اور بیروزگاری کے باوجود حکومت سندھ نے اپنے سیکڑوں افسران کے لیے نئی اور مہنگی گاڑیاں خریدنے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ یہ گاڑیاں آئندہ بجٹ سے پہلے یعنی رواں مالی سال کے فنڈز سے خریدی جارہی ہیں تفصیل میں ہے کہ شہری تحصیلوں یا سب ڈویژنوںاور ڈویژنل اور ضلعی ہیڈکوارٹر میں کام کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر یا مختار کار کے لیے 1300 سی سی ٹیوٹا یارس خریدی جائیں گی جبکہ دیہی تعلقوں یا سب ڈویژنوں میں کام کرنے والے مختار کار یا اسسٹنٹ کمشنروں کے لیے ہائی لکس فور بائی فور ڈبل کیبن اسٹینڈرڈ ایڈیشن کی خریداری کی جائے گی۔ واضح رہے صوبہ سندھ میں 31اضلاع اور 150تحصیل یا سب ڈویژن ہیں جبکہ کراچی میں 7اضلاع اور 31سب ڈویژن ہیں پاکستان میں 1300 سی سی ٹیوٹا ہارس کی قیمت 43لاکھ روپے سے 55لاکھ روپے تک ہے جبکہ ہائی لکس فور بائی فور ڈبل کیبن کی قیمت ایک کروڑ سے زیادہ ہے واضح رہے کہ صوبے کے ڈپٹی کمشنرز کے لیے ان سے بھی مہنگی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں‘‘۔ اگر ہم 1300 سی سی کی اوسط قیمت 50لاکھ لگاتے ہیں تو 150اسسٹنٹ کمشنروں اور مختارکار کے لیے یہ گاڑیاں 75کروڑ میں آئیں گی اور 31 ڈپٹی کمشنروں کے لیے ہائی لکس ڈبل کیبن کی اوسط قیمت ڈیڑھ کروڑ رکھی جائے 40کروڑ میں آئیں گی اس طرح سندھ کے پونے دوسو افسران کے لیے سوا ارب روپے کی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں۔
اب ذرا ایک اور خبر ملاحظہ فرمائیں ’’عالمی بینک کی سندھ میں سوشل پروٹیکشن ڈیلیوری سسٹم کے نام سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق غربت کی وجہ سے صوبے میں خوراک کی کمی (Rate stunning) پاکستان کے دیگر صوبوں سے زیادہ یعنی 49.9 فی صد ہے۔ سندھ میں صحت کی صورتحال سے متعلق عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں حمل اور زچگی کے دوران مرنے کا تناسب پنجاب اور خیبر پختون خوا سے زیادہ ہے جبکہ 5سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات خیبر پختون خوا سے زیادہ ہے۔ معروف معاشی ماہر قیصر بنگالی نے صوبے کے افسران کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری کوغیر پیداواری اخراجات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خراب معاشی حالات کے باعث وفاقی حکومت اور تمام صوبوں کو اس قسم کے غیر پیداواری اخراجات سے گریز کرنا چاہیے۔
ایک اور خبر نظر سے گزری ہے کہ ہمارے وزیر اعظم جو چین کے دورے پر گئے ہیں وہ 105افراد کا وفد لے کر گئے ہیں۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اتنی بڑی بارات ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے پھر ان کے ہوٹل اور سیر تفریح کے اخراجات ملک کی تباہ حال معیشت پر ایک بوجھ نہیں تو اور کیا ہے۔ اس قسم کے دوروں میں افراد کو ساتھ لے جانا سیر تفریح کرانا ایک طرح کی سیاسی رشوت کہلاتی ہے۔ پچھلے دنوں یہ خبر بھی آچکی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی بم پروف گاڑی کے ٹائر بدلوانے پر 3 کروڑ روپے کے اخراجات آئے مضمون کے آغاز میں ملک پر قرضوں کے حوالے سے جو اعداد وشمار دیے گئے ہیں ان سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملک تو قرضوں میں ڈوب رہا ہے اور ہمارے حکمرانوں کی عیاشیاں ختم ہونے میں نہیں آرہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اثاثے ظاہر کرنے پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے جبکہ آئندہ بجٹ میں انسداد بدعنوانی کے لیے سخت اقدامات کی تجویز بھی دی ہے۔
کرپٹ لوگ ذہین بھی ہوتے ہیں آئی ایم ایف کے بار بار مطالبے کے باوجود وفاقی حکومت اثاثے عوامی سطح پر ظاہر کرنے کے لیے پورٹل بنانے میں ناکام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنا جرم چھپانے میں کامیاب ہوئی ہے دوسری طرف آئی ایم ایف کے بار بار مطالبے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کا نظام درست کرنا چاہتا ہے بلکہ اس مطالبے کے نتیجے میں پاکستانی حکمرانوں کو بلیک میل کرنا آسان ہو جائے گا اس لیے ان وزراء ارکان پارلیمنٹ کے حلال کی آمدنی تو ہوتی نہیں ہے اس لیے یہ اپنے اثاثے پوری طرح ظاہر نہیں کرتے پھر جو عوام سے چھپائیں گے وہ آئی ایم ایف کے علم میں ہوں گے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس ملک سب ہی مل کے لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں وائٹ کالر جرائم کا ثابت کرنا بہت مشکل ہے اور جب جرم ثابت ہی نہیں ہو سکے گا تو پھر سزا کیا اور کیسے ملے گی۔
کچھ دن پہلے پنشن کے حوالے سے خبر نظر سے گزری تھی کہ اس وقت بھی کئی کھرب روپے پنشن میں چلے جاتے ہیں پھر ہمارے ریٹائرڈ ججوں اور اعلیٰ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو مراعات دی جاتی ہیں اسی کا بجٹ اربوں روپے میں چلا جاتا ہے۔ صرف بجلی کے بلوں ہی کو دیکھ لیں ہمارے ملک میں مساجد، امام بارگاہوں، مندر، چرچ اور گوردواروں میں جو بجلی استعمال ہوتی ہے اس کے بلوں کی باقاعدہ ادائیگی ہوتی ہے لیکن ہماری اشرافیہ کے گھر ان عبادت گاہوں سے بھی زیادہ مقدس ہیں کہ وہ چاہے جتنی بجلی استعمال کریں ان سے کوئی بل نہیں وصول کیے جائیں گے۔
آئی ایم ایف نے اور بھی شرائط عائد کی ہیں جس میں جی ایس ٹی ایک فی صد بڑھانے کی بات کی ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے ترقیاتی اسکیموں کے لیے اراکین پارلیمنٹ کے فنڈز ختم کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ یہ وہ اسکیم ہے جس کے ذریعے حکومت ارکان اسمبلی کو رشوت دیتی ہے صرف رواں مالی سال میں ارکان پارلیمنٹ کو 61ارب روپے کی اسکیمیں دی گئیں۔ لیکن گزشتہ دس سال کے ترقیاتی فنڈز کا حساب لگائیں تو وہ 610ارب روپے بن جاتے ہیں اس رقم کا کاغذوں میں تو استعمال خوب ہوجاتا ہے لیکن ترقی آج تک نہیں ہوئی۔