تارکین ِ وطن اور برطانوی انتخابات

381

امریکا، کینیڈا اور متعدد یورپی ممالک کی طرح برطانیہ کے لیے تارکینِ وطن کا معاملہ خاصی پریشان کن شکل اختیار کرچکا ہے۔ برطانوی وزیر ِاعظم رِشی سُناک نے عہد کیا ہے کہ اگر کنزرویٹو پارٹی 4 جولائی کے عام انتخابات میں پھر جیت گئی تو وہ تارکین ِ وطن کی آمد روکنے کے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کریں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے افریقی ملک روانڈا سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین ِ وطن کو ملک بدر کرنے کا عمل 24 جولائی سے شروع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

برطانوی انتخابات میں تارکین ِ وطن کا اِشو مرکزی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ جنوری میں رِشی سُناک نے امیگریشن سے متعلق قوانین اور ضوابط میں چند ترامیم متعارف کرائی تھیں۔ انہوں نے فیملی ویزا کے لیے آمدنی کی حد بھی بڑھادی ہے۔ اس اقدام کو برطانوی عدالتوں میں چیلنج کیا جاچکا ہے۔ بھارت اور دیگر بہت سے ممالک کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے وہ اپنے بیوی بچوں سے دور ہوجائیں گے یعنی کہ یہ ترمیم خاندانوں کو منتشر کردے گی۔

برطانیہ میں قانونی اور غیر قانونی ہر دو طرح کے تارکین ِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ملک کے اصل باشندے بہت پریشان ہیں۔ تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث ہاؤسنگ، تعلیم اور صحت ِ عامہ کے بنیادی ڈھانچے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں مکانات اور دکانوں کے کرائے بہت بڑھ گئے ہیں۔ علاوہ ازیں معاشرتی سطح پر بھی بہت سی پیچیدگیاں رونما ہو رہی ہیں۔ انگلینڈ کے متعدد شہروں میں مقامی باشندے شدید عدمِ تحفظ کے احساس سے دوچار ہیں۔ اُنہیں اپنے اقلیت بن جانے اور ثقافتی شناخت سے محروم ہو جانے کا خدشہ لاحق ہے۔ فرانس پہنچ کر رُودبارِ انگلستان عبور کرکے انگلینڈ میں داخل ہونے والے افریقی باشندوں کی تعداد بھی غیر معمولی رفتار سے بڑھتی جارہی ہے۔

بریگزٹ مہم کے دوران، 2016 میں، یورپ کی طرف سے لوگوں کی آزادانہ آمد روکنے کی بات کہی گئی تھی تاہم اس حوالے سے کچھ خاص کیا نہیں جاسکا ہے۔ 2015 میں یورپ کی طرف سے کم و بیش 3 لاکھ 29 ہزار باشندوں نے برطانیہ کا رُخ کیا۔ قومی دفتر برائے شماریات نے بتایا ہے کہ 2023 کے دوران برطانیہ میں تارکینِ وطن کی آمد میں 10 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ 2022 میں یہ تعداد 7 لاکھ 64 ہزار تھی جو 2023 میں 6 لاکھ 85 ہزار ہوگئی۔

جنوری 2024 میں رِشی سُناک نے تارکین ِ وطن سے متعلق نئے قواعد متعارف کرائے جن کے تحت تارکین ِ وطن کی آمد کو 3 لاکھ سالانہ تک محدود رکھا جانا تھا۔ نئے قواعد کے تحت بیرونی طلبہ کو اپنے فیملی ممبرز کو اسپانسر کرنے سے روک دیا گیا۔ ہنر مند محنت کش کا ویزا حاصل کرنے کے لیے متوقع آمدنی کی حد 48 فی صد کے اضافے سے 49 ہزار ڈالر سالانہ کردی گئی۔ اِس صورت میں کیئر ورکرز کے لیے اپنے اہل ِ خانہ کو برطانیہ بُلوانا دشوار ہوگیا۔

حکومت نے گزشتہ ماہ بتایا کہ اِن اقدامات سے 2024 کے پہلے چار ماہ کے دوران طلبہ پر انحصار کرتے ہوئے برطانیہ آنے کے لیے دی جانے والی درخواستوں میں 79 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ گزشتہ برس کی اِسی مدت کے مقابلے میں رواں سال بیرونی طلبہ کی ویزا کی درخوستوں میں بھی 30 ہزار کی کمی واقع ہوئی۔ ہیلتھ اینڈ کیئر ورکرز پر منحصر افراد (اہل ِ خانہ) کی طرف سے برطانوی ویزے کے لیے دی جانے والی درخواستوں کی تعداد میں بھی 58 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

برطانیہ کو مستقل مستقر بنانے کے خواہش مند افراد میں بھارتی باشندے نمایاں ہیں۔ 2023 میں ترکِ وطن کرکے تعلیم اور ملازمت کے لیے برطانیہ آنے والوں میں بھارتی باشندے سب سے بڑے گروپ کے طور پر ابھرے۔ اُن کی تعداد 2 لاکھ 53 ہزار تھی۔ 2022 میں تارکین ِ وطن کی آمد میں مجموعی طور پر 10 فی صد کمی کے تناظر میں یہ تعداد خاصی پریشان کن ہے۔ ایک لاکھ 27 ہزار بھارتی باشندے ملازمت کے مواقع کی تلاش میں آئے۔ ایک لاکھ 15 ہزار کی آمد کا مقصد تعلیم کا حصول تھا۔

برطانیہ کا رُخ کرنے والوں میں دوسرا گروپ نائجیریا کے باشندوں کا تھا۔ ایک لاکھ 41 ہزار نائجیرین باشندے مختلف مقاصد کے تحت برطانیہ پہنچے۔ قومی دفتر برائے شماریات کے مطابق تیسرے نمبر پر چینی اور چوتھے نمبر پر پاکستانی رہے۔ روانڈا کے تارکین ِ وطن کو بزور نکالنے کی رِشی سُناک کی پالیسی کو قانونی پیچیدگیوں کا بھی سامنا ہے۔ علاوہ ازیں یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی اختلافِ رائے کو جنم دے رہا ہے۔

برطانوی عدالت عظمیٰ نے نومبر 2023 میں روانڈا کے تارکین ِ وطن کو بزور نکالنے کی پالیسی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا مگر اِس کے باوجود رِشی سُناک نے روانڈا سے ایک نیا معاہدہ کیا اور برطانوی عدالت عظمیٰ کی رولنگ کے خلاف جاتے ہوئے تارکین ِ وطن سے متعلق قانون میں خصوصی ترامیم منظور کروائیں۔ پہلی ڈیپورٹیشن فلائٹ 24 جولائی کو روانہ ہوگی تاہم اِس کا مدار انتخابی نتائج پر ہے۔

رِشی سُناک کی کنزرویٹو پارٹی کی سب سے بڑی حریف لیبر پارٹی انتخابات سے متعلق رائے عامہ کے جائزوں میں 20 پوائنٹس کی برتری لیے ہوئے ہے۔ اُس نے الیکشن جیتنے کی صورت میں روانڈا کے باشندوں کی ڈیپورٹیشن منسوخ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ لندن ہائی کورٹ میں ایک درخواست کی سماعت کے دوران Asylum Aid کی وکیل چارلوٹ کِلرائے نے روانڈا کے تارکینِ وطن کی ڈیپورٹیشن فلائٹ کی تاریخ کے اعلان پر تعجب کا اظہار کیا۔ رُودبارِ انگلستان عبور کرکے برطانیہ میں پناہ گزین کی حیثیت سے داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد (10 ہزار) رواں سال بھی ریکارڈ رہی ہے جبکہ یہ 2023 کے مقابلے میں ایک تہائی ہے! جج مارٹن چیمبرلین نے کہا کہ تارکین ِ وطن سے متعلق پالیسی کا مستقبل انتخابی نتائج سے مربوط و مشروط ہے اور اس حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔