اعتراف حقیقت اور داخلی ارتقا

604

گزشتہ دنوں ہم نے انہی کالموں میں اعتراف حقیقت کے بارے میں چند باتیں عرض کی تھیں جن سے موضوع اور اس کے بعض حقائق کی نشاندہی ہوگئی تھی اور یہ امر واضح ہو گیا تھا کہ اعتراف حقیقت کا فرد کے داخلی ارتقا سے بہت گہرا تعلق ہے، تاہم یہ بات واضح نہ ہو سکی تھی کہ اعتراف حقیقت کے ذریعے داخلی ارتقا کا عمل کسی طرح وقوع پزیر ہوتا ہے اور انسانی شخصیت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آج کی نشست میں ہم انہی امور کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
اعتراف حقیقت کا مفہوم رد و قبول کے واضح عمل سے گزرنا ہے یعنی اعتراف حقیقت کے نتیجے میں یاد تو فرد کسی چیز کو حتمی طور پر قبول کر لیتا ہے یا رد کر دیتا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ فرد اپنی حقیقت سے زیادہ مربوط ہو جاتا ہے بلکہ اس کی داخلی اور خارجی گنجائش بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ جو چیز رد ہو جاتی ہے، وہ انسان کے وجود سے باہر ہو جاتی ہے اور جو چیز قبول کر لی جاتی ہے، وہ انسان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس سلسلے میں دو مثالیں بات کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔
انسان جو غذا استعمال کرتا ہے، اس کے حوالے سے تین ہی صورتیں رونما ہو سکتی ہیں یا تو اس غذا کو ہمارا جسم اور نظام ہضم قبول کر لیتا ہے اور پھر وہ غذا ہضم ہو کر ہمارے خون اور ہمارے جسم کا حصہ بن جاتی ہے یا پھر جسم غذا کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور قے کے ذریعے وہ غذا جسم سے باہر آجاتی ہے۔ لیکن ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جسم نہ غذا کو قبول کرے اور نہ وہ قے وغیرہ کے ذریعے جسم سے باہر آئے۔ پہلی دونوں صورتوں میں انسان کے لیے مزید غذا استعمال کرنے کا امکان موجود ہے لیکن تیسری صورت میں نئی غذا کے استعمال کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ اعتراف حقیقت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ حقیقی اعتراف حقیقت کے نتیجے میں یا تو ہم کسی چیز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رد کر دیتے ہیں یا قبول کر لیتے ہیں۔ اس صورت میں ہمارے لیے نئے حقائق کو اپنانے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے لیکن انسانوں کی عظیم اکثریت کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ زندگی بھر اکثر باتوں کوحتمی طور پر رد یا قبول نہیں کر پاتی اور اگر کہیں ایسا ہوتا بھی ہے تو محض ’’تصور‘‘ کی سطح پر۔ یعنی انسان یہ فرض کر لیتا ہے کہ اس نے کسی بات کو حتمی طور پر قبول یا رد کر دیا ہے لیکن کسی بات کو تصور کی سطح پر رد یا قبول کرنا اور بات ہے۔ محض تصور کی سطح پر کسی بات کو رد کرنے سے اکثر باتیں یا حقائق ایک طرح کا سایہ یا ایک طرح کا بھوت بن جاتی ہیں جو زندگی بھر ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے اور یوں ہمارے لیے نئے حقائق کو قبول کرنے اور داخلی طور پر نمو پانے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔
دوسری مثال کباڑ خانے کی ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کوئی چیز ترتیب سے موجود نہیں ہوتی۔ اس میں ہر شے بس کہیں نہ کہیں ’’پھینک‘‘ دی گئی ہوتی ہے۔ بے ترتیبی سے ایک طرف جگہ کی گنجائش محدود ہو جاتی ہے اور دوسری جانب یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی شے کہاں پڑی ہے۔ چنانچہ ضرورت کے وقت کسی چیز کو تلاش کرنے کے لیے اچھی خاصی مہم چلانی پڑتی ہے۔ اکثر انسانوں کی حالت بھی کباڑ خانے جیسی ہوتی ہے۔ ہزاروں خیالات، جذبات، احساسات، تجربات، عمل اور رد عمل ایک دوسرے میں مدغم پڑے ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ کے بارے میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا ہیں اور کہاں پڑے ہوئے ہیں لیکن اکثر کے بارے میں ہمیں یا تو کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا یا ہوتا ہے تو بہت ہی کم۔ یہاں تک کہ جن خیالات و جذبات کے بارے میں ہمارا خیال ہوتا ہے کہ ہم ان کی نوعیت اور ان کے مقام سے آگاہ ہیں، ان کے سلسلے میں بھی اکثر یہ صورت حال پیش آتی ہے کہ ہمیں اچانک کسی لمحے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بارے میں ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہ تھا۔ اس صورت حال کی محض کوئی ایک وجہ نہیں ہے لیکن اعتراف حقیقت کی عدم موجودگی اس کا بہت اہم اور بنیادی سبب ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اعتراف حقیقت داخلی تنظیم و ترتیب کے اہم ترین اسباب میں سے ایک ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ داخلی ترتیب و تنظیم کے بغیر انسانی وجود کا صحت مند اور مسلسل ارتقا ممکن نہیں۔
ایک کباڑ خانے میں جب ہم ترتیب و تنظیم کا اصول اپنا لیتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ مقام کی گنجائش میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ کباڑ خانے میں رکھی ہوئی اشیا کی شناخت اور ان تک رسائی بھی آسان ہو جاتی ہے، گنجائش میں اضافے کی دو صورتیں ہوتی ہیں: ایک یہ کہ ترتیب سے بجائے خود گنجائش بڑھتی ہے اور دوسری یہ کہ ترتیب و تنظیم کے اصول کے تحت ہم یکسر ناکارہ چیزوں کو نکال باہر کرتے ہیں۔ اشیا کی شناخت، ان کے مابین تعلق یا عدم تعلق کی نوعیت بالکل عیاں ہو جاتی ہے۔ انسانی وجود کا معاملہ بھی یہی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اعتراف حقیقت زیادہ آزادی اور زیادہ گنجائش کا دوسرا نام ہے۔ گنجائش سے مزید آزادی اور آزادی سے مزید گنجائش جنم لیتی ہے۔ یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا ایسا سلسلہ ہے جس کے تحت انسانی وجود اُفقی اور عمودی، داخلی اور خارجی غرضیکہ ہر سمت میں ارتقا پزیر ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان کو بیک وقت مختلف درجوں کے ہزاروں حقائق کا سامنا ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی ایک یا دو چار باتوں کے اعتراف سے داخلی ارتقا کے عمل میں زیادہ مدد نہیں مل سکتی۔ تا ہم اتنی بات واضح ہے کہ خواہ اعتراف حقیقت کا تعلق انسانی وجود کے کسی بھی درجہ سے ہو، انسانی شخصیت پر اس کے اثرات مرتب ہو کر رہتے ہیں۔
یہ ایک اہم اور دلچسپ سوال ہے کہ انسان کے لیے حقیقت کا اعتراف کیوں مشکل ہوتا ہے؟ گزشتہ ہفتے ہم نے اس سلسلے میں بعض ایسے امور کی نشاندہی کی تھی جن کا تعلق قدرے انسان کی خارجی دنیا سے ہے۔ مثلاً انسان کے مفادات، زمانے کا دباؤ، دنیا کے تقاضے وغیرہ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدم اعتراف حقیقت کے رجحان کا انسان کی نفسیات سے بھی گہرا تعلق ہے۔ بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ انسان حقیقت کے اعتراف سے اس لیے کتراتا ہے کہ اکثر حقائق نا خوشگوار ہوتے ہیں۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان خوشگوار حقائق کا اعتراف بھی پوری طرح نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اعتراف حقیقت کرتے ہی انسان پر کچھ ذمے داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ گویا انسان اعتراف حقیقت سے نہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں عائد ہونے والی ذمے داریوں سے خوف کھاتا ہے، ذمے داری انسان کا جوہر ہے اور پھر یہ ہے کہ اس میں ایک ڈیزائن ہوتا ہے لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے: ہم نے عرض کیا ہے کہ اعتراف حقیقت گنجائش اور آزادی کا دوسرا نام ہے۔ بظاہر سمجھا یہی جاتا ہے کہ انسان آزادی اور گنجائش کو پسند کرتا ہے اور یہ کوئی غلط رائے نہیں ہے، لیکن ظاہر ہے کہ آزادی اور گنجائش کو وہی پسند کرے گا جسے آزادی اور گنجائش کا تجربہ ہو چکا ہو، ورنہ قید میں زندگی بسر کرنے والے کے لیے آزادی اور وسعت سے بڑا خوف کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس حقیقت کو فرد سے لے کر قوموں اور تہذیبوں کی سطح تک دیکھا جا سکتا ہے۔ محدود زندگی بہر حال ’’محفوظ زندگی‘‘ ہوتی ہے اور وسعت میں خطرات بڑھ جایا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اعتراف حقیقت سے گریز کرتے ہیں۔ انہیں آزادی، گنجائش اور وسعت کا خوف لاحق ہوتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے اکثر پست جذبات و خیالات کیوں پسند ہوتے ہیں اور ان سے کیوں چمٹا رہتا ہے۔ نفرت ، حقارت اور تعصب کے مسائل محض اخلاقی کمزوریوں کا شاخسانہ نہیں ہوتے۔ اکثر لوگ انہیں سہاروں اور درو دیوار کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ ایسے سہارے، ایسے درو دیوار جن سے انہیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ لاٹھی کی ضرورت اندھوں اور بیساکھیوں کی ضرورت معذورین ہی کو ہوتی ہے، بینا اور صحت مند افراد کے لیے یہ چیزیں بے معنی ہوتی ہیں۔ زندگی اور اس کی معنویت کا تقاضا ہے کہ انسان ایسے سہاروں سے بے نیاز ہو جائے اور ایسے درو دیوار کو مسمار کر دے کیونکہ جیسا کہ ہمارے دوست احمد نوید نے کہا ہے انسان کی ضرورت دو ہی اسم ہیں۔
وہ اسم جو شعور کو وسعت عطا کرے
یا وہ جو درمیاں سے اْٹھا دے تکلاُّفات