اسلام آباد اپنی تاریخ کی کمزور ترین حکومت کا سامنا کررہا ہے۔ فارم 47 اور سیاسی انجینئرنگ کی بنیاد پر کھڑی حکومت یا تو بڑے فیصلوں کے لیے آسانی سے استعمال ہو سکتی ہے یا پھر بڑے فیصلوں کی خواہش کو دل میں دبائے ہی رخصت ہوجائے گی۔ تاریخ میں پہلی بار حکومت ہی نہیں اس کے سرپرست بھی عوام کے بدلے ہوئے موڈ اور مزاج کے باعث دفاعی پوزیشن میں جا چکے ہیں۔ یوں جنوبی ایشیا کی دوسری اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پچیس کروڑ آبادی کا حامل ملک پاکستان ایک کمزور نظام کے تحت چل رہا ہے۔ ایسے میں خدا جانے دہلی والوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے بھی اپنے اچھے بھلے خودساختہ ’’ٹارزن‘‘ نریندر مودی کو انتخابی پٹخنی لگا کر بن دانتوں کا شیر بنا دیا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے اسلام آباد اور دہلی میں حکومتوں کا عدم توازن صاف جھلکتا اور چھلکتا تھا۔ اسلام آباد میں پی ڈی ایم ون اور ٹو کی کمزور اور بھارت میں این ڈی اے کے انتہا پسندوں کی طاقتور حکومت قائم تھی۔ بھارت کے عوام کا شکریہ جنہوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے اسلام آباد کی طرح دہلی میں بھی کمزور حکومت قائم کرکے خطے میں سیاسی طاقت کا توازن بحال کردیا۔ یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے علاج بھی، جو کسی بھی حکمران کو آمر مطلق نہیں بننے دیتی۔ ویسے پاکستان میں جمہوریت اس قدر حسین نہ سہی مگر یہاں کی آمریت کا بھی اپنا ہی حسن ہے جو یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا آمر بھی دل میں کم از کم بیس سال کی خواہش دبائے گرتے پڑتے دس سال سے اوپر حکمرانی نہیں کر سکا۔آج کے اسلام آباد کی کہانی تو شیر اور تیر کے دومشہور زمانہ نشانوں کے مقابل آلو، پیاز، بینگن، جوتوں، درانتیوں، اینٹوں، چمٹوں، باجوں اور بانسریوں کو پڑنے والے لاتعداد ووٹوں سے دنیا پر عیاں ہوچکی ہے مگر دہلی میں نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کی طاقت کو گہن لگنے کی کہانی بھی اس سے کم دلچسپ نہیں۔
نریندر مودی کی پوری کوشش تھی کہ وہ تیسری باری کے لیے پاکستان کے ساتھ کوئی ایسا تنازع شروع کریں جو ان کی سیاست کے لیے’’پلوامہ‘‘ اور ’’بالاکوٹ‘‘ حملوں کا کام دے سکے۔ دوسری طر ف پاکستان نریندر مودی کی طنز بازی، تندو تیز جملوں اور کشیدگی بڑھانے کے جواب میں اپنے معاشی اور سیاسی مسائل کے بھنور میں گھرا اس شعرکی تصویر بنا بیٹھا تھا۔
نہ چھیڑ اے نکہتِ باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
یہاں تک کہ جب فاروق عبداللہ نے نریندر مودی کو یاد دلایا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے تم ان پر حملہ کرو گے تو انہوں نے چوڑیاں تو نہیں پہن رکھیں تو دوسرے ہی دن نریندر مودی نے نام لیے بغیر اس بات کا جواب یوں دیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنیں چلو چوڑیاں بھی پہنادیں گے مگر مودی کی بدقسمتی یہ کہ پاکستان کو چوڑیاں پہنانے سے پہلے ہی بھارتی عوام نے ان کے پیروں میں اتحادی سیاست کے حالات کی بیڑیاں ڈال دیں۔ وہ تیسری بار وزیر اعظم تو بن ہی گئے مگر یہ پچھلی دوبار والا نریندر مودی نہیں بلکہ نوے کی دہائی والے ہر چند ماہ بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی سے محروم ہونے والے چندر شیکھر، وی پی سنگھ اور دیوے گوڑا کی طرح اپوزیشن کے ایک دھکے یا کسی اتحادی جماعت کی ایک اینٹ سرک جانے کی مار ہیں۔ جس دن کسی اتحادی کو نریندر مودی نے ’’پرنام‘‘ کرنے میں دیر کردی وہی ان کی حکومت کا آخری دن ہوگا۔ یوں اب کچھ عرصہ تک آر پار کا حال ’’آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں‘‘ والا ہی رہے گا۔
پاکستان کی حکومت کو بہرحال داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے صبر اور حوصلے سے مودی کی جلی کٹی سنیں مگر اسے دوبارہ انتخابی چوکے چھکے لگانے کے لیے پلوامہ اور بالاکوٹ کی پچ فراہم نہیں کی یوں مودی کے نعرے اور دعوے اپنی کشش کھوتے چلے گئے۔ بھارتی ووٹر نے سوچا بقول آپ کے پاکستان آپ سے لڑنے کے قابل نہیں رہا چین سے آپ لڑنا نہیں چاہتے تو پھر راہول ہوں یا مودی اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان سے صرف فواد چودھری کبھی کجریوال تو کبھی راہول کی تعریفوں بھرے ٹویٹ کرکے مودی کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے رہے اور حد تو یہ کہ مودی بھی ان باتوں کو سنجیدہ لیتے رہے۔ ایک بار انہوں نے کہا کہ پاکستان سے کجریوال اور راہول کی حمایت ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور یہ تحقیقات کا متقاضی ہے۔ مودی جی کی حالت پتلی ہونے کا عالم یہ تھا کہ وہ فواد چودھری کے ٹویٹ کو پاکستان کی آواز سمجھ کر اس پر تبصرہ کرتے رہے۔ اب اسلام آباد اور دہلی کی حکومتیں بیک وقت کمزوری کی صلیب پر جھول رہی ہیں اور ان سے بڑے فیصلوں کی توقع عبث ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات مزید لٹک کر رہ جائیں گے۔
نریندر مودی جب دوسری بار وزیر اعظم بنے تھے تو عمران خان نے برصغیر کے دیرینہ مسائل حل ہونے کی توقع کا اظہار کیا تھا۔ گویا کہ وہ جہاں مودی کو بھارتی اسٹیبلشمنٹ، پارلیمنٹ اور سخت گیر ہند ولابی کا نمائندہ سمجھ کر بڑے فیصلوں کی صلاحیت کا حامل قرار دے رہے تھے وہیں وہ ’’ایک صفحے‘‘ پر شرحِ صدر رکھ کر خود کو پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی آواز اور نمائندہ قرار دے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا دونوں طرف کی مضبوط لابیاں آگے چل کر بڑے فیصلوں کا سرپرائز دینے کی صلاحیت کی حامل ہو ں گی۔ عمران خان مودی کے بارے میں جو کچھ سمجھ رہے تھے ٹھیک تھا مگر اپنے بارے میں ان کا تاثر فریب ِ نظر اور پاکستان کے زمینی حقائق سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ بعد میں ایک صفحہ کچھ یوں پھٹ گیا کہ: اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کسی طاقتور سویلین حکمران کا بوجھ اپنے پروں پر زیادہ دیر اْٹھائے نہیں پھرتی اور نہ ہی کسی کو اس قدر طاقتور ہونے دیتی ہے کہ پروں کا توازن خراب ہونے لگے۔ سو بھارت کے معاملے میں عمران خان الگ تھلک ہوتے گئے اور باجوہ ڈاکٹرائن روبہ عمل آتا چلا گیا۔ پاکستان میں نریندر مودی کی کیمسٹری جن سیاسی قوتوں کے ساتھ مل رہی تھی وہ طاقت میں آتو گئے ہیں مگر ان کا اقتدار کاغذ کی ناؤ سے زیادہ کسی حیثیت کا حامل نہیں اور اب تیسری بارکے وزیر اعظم مودی کا حال بھی اس سے چنداں مختلف نہیں۔ اسلام آباد اور دہلی میں کمزور حکومتوں کا یہ امتزاج جنوبی ایشیا کی سیاست بالخصوص تنازع کشمیر پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے اس سوال سے قطع نظر یوں لگتا ہے کہ اگلے مگر شفاف اور صاف منظر کی تشکیل نو تک حالات ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا شکار یعنی جوں کے توں رہیں گے۔ پاکستان میں منظر کی تبدیلی دیوار پر لکھی ہے اور بھارت کے بارے میں ابھی سے ایک سال کے اندر مڈٹرم الیکشن کی باتیں عام ہونے لگی ہیں۔