مصنوعی ذہانت اور ذہنی صحت

402

مصنوعی ذہانت سے جن شعبوں میں بہت زیادہ کام لیا جارہا ہے اُن میں بینکاری اور صحتِ عامہ نمایاں ہیں۔ صحت ِ عامہ کا شعبہ جدت کا متقاضی رہتا ہے کیونکہ عام آدمی کی صحت کا گراف قابل ِ رشک حد تک بلند رکھنا ہر حکومت یا انتظامی مشینری کی بنیادی ترجیح ہوا کرتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبۂ نفسیات نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک ایسا انٹرفیس تیار کیا ہے جو کسی بھی شخص کو ذہنی صحت کے حوالے سے درست راہ پر گامزن رہنے میں مدد دے گا۔ اس شعبے نے مصنوعی ذہانت پر مشتمل ماہر ِ نفسیات ’’پیٹرُشکا‘‘ تیار کیا ہے۔ یہ اے آئی ٹُول ہے یعنی مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرنے والا آلہ۔ یہ مشینی ماہر ِ نفسیات کسی بھی شخص کو، خصوصی الگورتھم کی مدد سے، ڈپریشن کی موزوں ترین دوا تک رسائی میں مدد دے گا۔
دنیا بھر میں طبی ماہرین کا ایک بنیادی مسئلہ کسی بھی مریض کے لیے موزوں ترین دوا تجویز کرنا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے جو اے آئی سائیکیاٹرسٹ تیار کیا ہے وہ کم و بیش 10 لاکھ مریضوں کی ذاتی طبی تاریخ سے مطلوب نتائج اخذ کرتے ہوئے کسی بھی شخص کو موزوں ترین دوا تک رسائی میں مدد دے گا۔ سوال صرف دوا تجویز کرنے کا نہیں بلکہ کسٹمائز دوا تجویز کرنے کا ہے۔ طبی ماہرین اس نکتے کو خوب سمجھتے ہیں کہ ایک ہی بیماری میں مبتلا تمام افراد کو ایک ہی دوا نہیں دی جاسکتی۔ دواؤں کے خواص اور تاثیر کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کسے کون سی دوا دی جائے اور اُس دوا کی طاقت (potency) کتنی ہونی چاہیے۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ڈپریشن اب ایک عمومی کیفیت ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اِس کے تدارک کے بارے میں نہ سوچا جائے۔ فی زمانہ ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے ذہنی دباؤ کی زد میں رہتا ہے۔
آکسفرڈ میں ذہنی علاج کے شعبے کی ایک ٹیم اِس موسمِ گرما کے دوران 200 اور مجموعی طور پر 500 افراد پر تجربے کرے گی۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والا ماہر ِ نفسیات ’’پیٹرُشکا‘‘ کسی بھی شخص کی جنس، عمر، علامات، شدت اور دیگر متعلقہ معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے ذاتی علاج تجویز کرے گا یعنی دوائیں بھی بتائے گا اور ممکنہ منفی اثرات سے بھی آگاہ کرے گا۔
پروفیسر اینڈریا سِپریانی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ’’حقیقی طبی مشق یہ ہے کہ ڈپریشن کی کوئی بھی دوا کلینک میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کے علم اور مہارت کی بنیاد پر تجویز کی جاتی ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں ڈپریشن سے نپٹنے کی کم و بیش 30 دوائیں موجود ہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ 90 فی صد جنرل فزیشین چار میں سے کوئی ایک دوا ہی تجویز کرتے ہیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ دواساز اداروں کی مارکیٹنگ اسٹرٹیجی بھی اس مشق کی ذمے دار ہوسکتی ہے۔ عام طور پر جنرل فزیشین یہ نہیں دیکھتے کہ ایک ہی دوا تمام یا بہت سے مریضوں کو نہیں دی جاسکتی۔ ہر جسم کے تقاضے الگ ہوتے ہیں اور اِن تقاضوں کی بنیاد ہی پر دوا کا تعین کیا جانا چاہیے‘‘۔
اب یہ بات تو طے ہے کہ تمام مریضوں کو ڈپریشن سے نپٹنے کے لیے معقول ترین دوا نہیں مل پاتی۔ تو پھر کیا کِیا جائے؟
پروفیسر اینڈریا سِپریانی کہتی ہیں ’’ہم اوسط کی بنیاد پر نہیں بلکہ انفرادی سطح پر علاج تجویز کرتے ہیں۔ ہر انسان کے جسم کی خصوصیات الگ ہوتی ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ مریض سے اُس کی پوری جسمانی کیفیت پوچھ کر ایسی دوا تجویز کی جائے جو ہر اعتبار سے موزوں ہو اور کہیں کوئی خامی نہ رہے۔ مختلف دوائیں آزمانے کے بجائے مریض سے تفصیلات معلوم کرکے تجزیے کی بنیاد پر معقول ترین دوا تجویز کرنا ہی کارگر ثابت ہوتا ہے‘‘۔
مریض مصنوعی ذہانت کے اِس ٹُول کی مدد سے علاج کے لیے اپنی انرولمنٹ کراسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک مختصر اسکریننگ پروسیجر سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت برطانیہ کے علاوہ کینیڈا اور برازیل میں بھی یہ طریقہ اپنایا جارہا ہے۔
ٹرائل مینیجر نائلہ حق کہتی ہیں ’’یہ تحقیق مجموعی طور پر 24 ہفتے جاری رہتی ہے۔ پہلے 8 ہفتوں کے بعد ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کتنے مریض تجویز کردہ دوا باقاعدگی سے لے رہے ہیں۔ اِس سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری یعنی مصنوعی ذہانت کی تجویز کردہ دوا کسی قدر قابل ِ قبول اور موثر ہے‘‘۔
مُوڈ، اضطراب، زندگی کے معیار اور منفی اثرات سے متعلق معلومات بھی جمع کی جارہی ہیں۔ اِس منصوبے کے لیے فنڈنگ دی نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ریسرچ نے کی ہے۔
صحت ِ عامہ کے ماہرین تیار کرنے میں بھی مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والے روبوٹس کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مریض کا خیال رکھنے میں بھی مصنوعی ذہانت کا اہم کردار ہے۔ فشارِ خون کی پیمائش، انجکشن اور دیگر میڈیکل پروسیجر مصنوعی ذہانت کی مدد سے انجام دیے جارہے ہیں۔ جس طور سِمولیٹرز کے ذریعے تربیت دی جاتی ہے بالکل اُسی طور مصنوعی ذہانت کی مدد سے بھی ہیلتھ پروفیشنلز کو تربیت دی جائے گی۔ لیکچرر سارہ لائڈ کہتی ہیں کہ طلبہ سوال پوچھ سکیں گے اور اُنہیں جواب بھی ملے گا۔ سِمولیٹرز نبض بھی چیک کرسکیں گے اور ڈیفیبریلیٹر کے ذریعے جھٹکے بھی لگا سکیں گے۔
دنیا بھر میں ہیلتھ پروفیشنلز کی تربیت کے لیے مصنوعی ذہانت کو عمدگی سے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ ذہنی صحت کا شعبہ بھی محروم نہیں رہا ہے۔ معمولی چیک اپ سے وارڈ میں باضابطہ علاج تک سبھی کچھ سِمولیٹرز کی مدد سے سِکھایا جارہا ہے۔ دواسازی اور علاج کے میدان میں مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا کردار حوصلہ افزا نتائج پیدا کر رہا ہے۔ (انڈیا ٹوڈے)