گزشتہ سال 2023-24 کا سالانہ بجٹ 14460 ارب روپے کا پیش ہوا۔ اس بجٹ کا تقریباً نصف حصہ 7570 ارب روپے قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے۔ پاکستان کا یہ بڑا المیہ ہے کہ اس کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرضوں اور سود میں چلا جاتا ہے جبکہ بقیہ نصف حصہ ہمارے دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے عملاً 25فی صد پوری قوم کی ترقی، صحت وتعلیم کے لیے خرچ ہو پاتا ہے۔ گزشتہ سال بجٹ میں توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے لوگوں کو سولر سسٹم کی طرف منتقل کیا گیا تاکہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے اس وجہ سے بجٹ میں یہ طے کیا گیا کہ سولر انورٹرز اور دیگر سامان اور سولر پلیٹوں پر ڈیوٹی صفر کر دی گئی یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم نے بہت بڑی سرمایہ کاری کر دی اور لوگوں نے اپنے گھروں اور کمرشل پروجیکٹ پر سولر لگوا لیے لیکن حال ہی میں حکومت کی جانب سے بیانات شرو ع ہو گئے کہ جو لوگ اپنے گھروں پر سولر لگوا رہے ہیں حکومت ان پر ٹیکس لگانے کا سوچ رہی ہے ایک طرف حکومت پنجاب کہہ رہی ہے کہ چھوٹ صارفین کو ہم خود گھروں میں سولر لگوا کر دیں گے۔ حکومتی پالیسیوں میں ٹھیراؤ نہیں ہے کہ ایک طرف سولر سسٹم لگانے اور لگوانے کی پالیسی چل رہی ہے اور دوسری طرف سولر سسٹم لگانے والوں پر ٹیکس لگانے کی بات چل رہی ہے۔
بجٹ 2023-24 میں اس کے علاوہ بہت سے شعبوں میں ڈیوٹی صفر کی گئی یا پھر ڈیوٹی کم کرنے کی پالیسی کا اعلان ہوا اور بعض شعبوں میں سبسڈیز اور تجارتی لون کی پالیسیوں کا بھی اعلان کیا گیا۔ مثلاً مائننگ مشنری کی درآمد پر ڈیوٹی صفر کی گئی تاکہ پاکستان میں کوئلہ اور دیگر کان کنی کے آلات منگوائے جا سکیں اور اس شعبے کو ترقی دی جاسکے۔ اسی طرح آئی ٹی سامان پر ڈیوٹی کو صفر کرنے کا کہا گیا تاکہ قوم آئی ٹی کی طرف متوجہ ہو۔ کہا گیا کہ ایک لاکھ نوجوان بچوں اور بچیوں کو لیب ٹاپ کی سہولت مہیا کی جائے گی۔ اسی طرح بجٹ میں خواتین کو ترقی دینے کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے تاکہ خواتین کو چھوٹے قرضے فراہم کیے جائیں۔ بجٹ ترجیحات میں طے کیا گیا کہ گریڈ 1تا 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35فی صد اضافہ کیا جائے گا۔ مزدور کی کم از کم تنخواہ 32ہزار روپے تجویز کی گئی۔ گریڈ 17 سے اوپر کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30فی صد اضافہ تجویز کیا گیا۔ پنشن میں 17فی صد اضافہ کیا گیا۔
بجٹ 2023-24 میں حکومت نے پاکستان میں ایگریکلچر کو ترقی دینے کا وعدہ کیا اور کہا کہ چھوٹے کسانوں کو ایگر یکلچر لون دیے جائیں گے بجٹ میں اس کے لیے 10ارب روپے رکھے گئے چھوٹے کسانوں کے لیے 2250 ارب روپے رکھے گئے کہ ان کے ذریعے کھاد اور بیچوں میں کسانوں کو قرضے دیے جائیں گے ساتھ یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ 50ہزار ٹیوب ویلز کو سولر انرجی پرمنتقل کیا جائے گا اور اس مد میں 30 ارب روپے الگ رکھے گئے۔ گزشتہ بجٹ میں زرعی ٹریکٹرز پر سے ڈیوٹی میں 15فی صد چھوٹ دی گئی اور یہ بھی طے ہوا کہ اپنی فصل کو بہتر بنانے کے لیے بیرون ملک سے جو اعلیٰ کوائلٹی کے بیج منگوائے جائیں گے ان پر ڈیوٹی صفر ہو گی۔ فصلوں کو بہتر بنانے کے لیے یوریا کھاد پر 16ارب سبسڈی دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح چاول کی مشنری اور دیگر ہیوی کمرشل وہیکلز پر کسٹم ڈیوٹی 10فی صد سے کم کر کے 5فی صد کر دی گئی۔ یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ ایگرو انڈسٹری کو ترقی دینے کے لیے 5ارب روپے رکھے گئے کہ لوگوں کو رعایتی قرضہ جات دیے جائیں گے۔
گزشتہ سال کے بجٹ میں خصوصاً زراعت کے شعبہ کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا گیا کہ ملک اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا ہے تو کیوں نہ ہم اپنے ملک کی زرعی پیداوار کو بڑھائیں جو زمین کاشت کے قابل ہے لیکن ہم کاشت نہیں کر رہے ہم ان زمینوں کو ترقی دیں اور زمینوں کو قابل کاشت بنا دیں۔ دنیا سے اچھے بیج منگوا کر فی ایکٹر پیداواری صلاحیت کو بڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوبصورت زمین خوبصورت 4موسم، دنیا کا طویل ترین نہری نظام دیا ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو گندم، چاول، گنا، کپاس اور دالیں پیدا کرنے والا ملک ہے یہ نہ صرف اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے بلکہ اپنے جیسے 10ممالک کو بھی پال سکتا ہے۔ ہمیشہ ملکی زرمبادلہ میں زراعت کا اہم کردار رہا ہے قومی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 23فی صد ہے جب کہ لیبر فورس میں اس کا حصہ 45فی صد ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہم اپنی پیداواری گروتھ کو بڑھائیں اور ا پنی زمینوں کو زراعت کے لیے مزید تیار کریں تو ہم جی ڈی پی میں 23فی صد حصہ کو 40فی صد سے50فی صد تک لے جاسکتے ہی اور اسی طرح لیبر فورس کو بھی 60فی صد سے 70فی صد تک لے جا سکتے ہیں اس وقت پاکستان میں 55 ملین ہیکڑ زمین قابل کاشت ہے جس پر تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے لیکن اس 55ملین ہیکڑ زمین میں سے ہم صرف 21 ملین ہیکڑ زمین ہی کاشت کر پاتے ہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں دنیا کی بہترین مونگ پھلی کاشت ہوتی ہے، پاکستان کی زمین زیتون کی کاشت کے لیے بہترین زمین ہے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں زیتون کی بہترین پیداور حاصل کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خیبر پختون خوا میں بڑے بڑے جنگل، جنگلی زیتون پہلے سے موجود ہیں اگر اعلیٰ نسل کے زیتون کی شاخوں کی پیوند کاری کی جائے تو بہترین اور اعلیٰ کوالٹی کا زیتون حاصل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں اس سال تقریباً 2 کروڑ 68 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوئی جو گزشتہ برسوں کے مقابلہ میں 1.6فی صد زیادہ تھی اس سال تقریباً 9ملین ہیکڑ رقبہ پر ہم نے گندم کاشت کی اس سال تقریباً 45 سے 60 من تک فی ایکٹر پیداوار ہوئی ہے۔ سندھ حکومت نے کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ہم 4000 روپے فی من گندم خریدیں گے۔ پنجاب حکومت نے 3900 روپے فی من گندم کا ریٹ طے کیا تھا۔ پاکستان کو سالانہ 3 کروڑ ٹن گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنوری فروری 2024 میں ہمارے گودام میں 40لاکھ ٹن گندم پہلے سے موجود تھی جبکہ ہمارے حکمرانوں کو معلوم تھا کہ فروری مارچ اور اپریل میں سندھ اور پنجاب کی گندم تیار ہو جاتی ہے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ ہماری نگراں حکومت نے فروری میں 1 ارب ڈالر کی گندم یوکرین سے منگوالی وہ گندم عین اس وقت پاکستان پہنچی جس وقت ہمارے کسانوں کی گندم تیار ہو کر کھیتوں میں پڑی تھی اور حکومت پر ہر طرف سے پریشر تھا کہ آپ نے اپنے کسانوں سے گندم خریدنے کے بجائے باہر سے گندم کیوں منگوائی بعض ذرائع کے مطابق وہ گندم بھی کیڑوں والی ہے جو انسانوں کے کھانے کے قابل بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب سندھ اور مرکزی حکومت نے کسانوں سے گندم خریدنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے پورے ملک میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ جماعت اسلامی نے کسانوں کی آواز بن کر حکومت پر پریشر ڈالا کہ کسانوں سے گندم خریدی جائے بالآخر حکومت پنجاب سندھ اور پاسکونے اور کے پی کے کی حکومت نے کسانوں سے کچھ گندم خریدی لیکن بڑی تعداد میں پنجاب کے کسانوں نے اپنی گندم اونے پونے داموں فروخت کر دی جو حکومتی ریٹ سے بہت کم تھا مثلاً 2800 روپے سے 3200 روپے فی من گندم کسانوں نے فروخت کی۔ حکومت وقت سے سوال ہے کہ کیا ہمارا کسان اگلے سال گندم کاشت کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا اگر آپ نے اس کو سستی گندم بیجنے پر مجبور کر دیا تو کیا اگلے سال یہ گندم ہمیں 10,000 روپے فی من مل سکے گی۔
ہماری پاکستانی عوام نے بھی جماعت اسلامی پر یہ سوال اٹھایا کہ اگر گندم سستی ہو رہی ہے آٹا سستا ہو رہا ہے تو جماعت اسلامی پنجاب کے کسانوں کے ساتھ کیوں کھڑی ہو گئی ہے ہم یہی بات حکومت وقت اور پاکستانی عوام کو سمجھاتے ہیں کہ اس سال حکومت کی وعدہ خلافی کی بنا پر کسان سستی گندم فروخت کر دے گا۔ لیکن اگلے سال آپ کسانوں کو مجبور نہ کر سکیں گے کہ وہ لازماً گندم کا شت کریں تو اس وقت 10,000 روپے فی من گندم ملنا مشکل ہو جائے گی اس لیے جماعت اسلامی کا یہ مطالبہ تھا کہ آپ گندم پر کسانوں کو سبسڈی دیں کسانوں سے اپنے وعدہ کے مطابق گندم خریدیں اور فلور ملوں کو سستی گندم دیں خوراک کے معاملے میں ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن ہماری حکومتوں کو اللہ ہی ہدایت دے جو بھی حکمران بنتا ہے اپنی جیب بھر کر اور پاکستان کو لوٹ کر چلا جاتا ہے اس کی واضح مثال انوار الحق کاکڑ اور حنیف عباسی کا مکالمہ جو اخبارات کی زینت بنا ایک نے دوسرے کو گندم چور کا طعنہ دیا تو دوسرے نے پہلے کو فارم 45کا چور اور فارم 47کا طعنہ دیا۔
ہماری خواہش ہے کہ آنے والے بجٹ میں ہماری حکومت زراعت کے شعبہ کو، ریلوے کو، شعبہ نوجونان کو، شعبہ خواتین کو، تعلیم کو، آئی ٹی کو، انرجی میں سولر، ہائیڈرل اور ونڈ کے شعبوں کو ترجیع اوّل میں رکھے۔ یہ ملک معاشی لحاظ سے اسی طرح ترقی کر سکتا ہے کہ ہم اپنے ان شعبہ ہائے زندگی کو ترقی دیں۔ اپنی زراعت کو ترقی دیں، تعلیم کو ترقی دیں، آج دینا میں ایسے ممالک موجود ہیں کہ جو اپنے بالغ اور باشعور نوجوانوں کو دوران تعلیم قرضوں فراہم کرتے ہیں وہ نوجوان تعلیم سے فارغ ہونے تک اپنا اچھا کاروبار جما چکے ہوتے ہیں ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں۔ اپنی معدنیات اپنے ائر پورٹ، اپنے قومی اداروں کی نجکاری اور اپنے قومی تعلیمی اداروں کی نجکاری سے نہ تو کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی قومی معیشت ترقی کر سکتی ہے حکومت وقت سے ہم یہی مطالبہ کر یں گے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ بند کر یں رجوع الی اللہ کریں، توبہ کریں اور ملک کی قومی معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کریں گے تو ملکی پیداوار دگنی چگنی ہو جائے گی قوم ترقی کرے گی اللہ زمین و آسماں کے خزانے کھول دے گا۔