بھارت کے وزیراعظم مودی نے انتخابات سے قبل نعرہ لگایا تھا ’’اب کی بار۔ چار سو پار‘‘۔ یعنی اس دفعہ وہ بھارت کی قومی اسمبلی (لوک سبھا) میں چار سو نشستیں حاصل کرکے بھاری اکثریت سے حکومت بنائیں گے لیکن وہ اور ان کی اتحادی جماعتوں این ڈی اے نے 300 نشستیں بھی حاصل نہیں کرسکیں۔ جن میں سے بی جے پی نے 240 نشستیں حاصل کی ہیں۔ یعنی حکومتی اتحاد کو تین سو کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ بھارت کی قومی اسمبلی کو لوک سبھا کہا جاتا ہے، آئین ہند کے مطابق لوک سبھا کے اراکین کی زیادہ سے زیادہ تعداد 552 رکھی گئی ہے جس میں سے 530 ارکان ریاستوں (صوبوں) سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور0 2 ارکان یونین علاقے (یہ مرکزی حکومت کے زیر اہتمام ہوتے ہیں) سے منتخب ہوتے ہیں۔ بھارت میں حکومت سازی کے لیے کسی جماعت یا اتحاد کو کم از کم 272 نشستیں حاصل کرنا ضروری ہے۔ اب تک حکومتی اتحاد مودی کی قیادت میں 244 نشستیں ہی حاصل کرسکی ہے جو پچھلے 2 الیکشنوں میں حاصل ہونے والی سیٹوں سے بہت کم ہے۔ لہٰذا اب مودی کو حکومت بنانے کے لیے اپنی حلیف جماعتوں کے تعاون پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اگرچہ ابھی کسی بھی بات کو حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا۔ بی جے پی کے لیے سب سے بڑا سیٹ بیک اس کے اپنے گڑھ اترپردیش اور راجستھان میں ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ایودھیا کی نشست بھی اُس کے ہاتھ سے نکل گئی جہاں اس نے رام مندر بنانے کے نام پر پورے ملک سے ہندوئوں کو جذباتی طور پر بی جے پی کی حمایت میں اُبھارا تھا۔ ابھی اگرچہ مکمل طور پر نتائج کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ مودی نے بی جے پی کے مرکزی ہیڈ کوارٹر سے کارکنوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے ووٹروں کی رائے کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اپنی اتحادی سیاست کے باوجود اتنی نشستیں حاصل نہیں کرپائی ہے جتنی کہ بی جے پی اتحاد نے حاصل کی ہیں۔ لہٰذا اس کو انہوں نے ایک بڑی فتح قرار دیا ہے۔ یہ ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ جس اسٹیج پر سے مودی نے اپنے کارکنوں کو خطاب کیا وہاں اردو میں شکریہ بھارت لکھا نظر آرہا تھا۔ پھر مودی نے اپنی تقریر میں نہ رام کا ذکر کیا اور نہ ہی ’’مودی گارنٹی‘‘ کا ذکر کیا۔ انتخابی نتائج اور اس کے بعد مودی کی تقریر اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ مودی اب ’’دیوتا نما‘‘ نہیں ہیں اب وہ ایک عام سیاسی رہنما ہیں جو کہ کافی چھوٹے بھی ہوگئے ہیں، انتخابات کے نتائج عوام کی طرف سے پیغام ہے کہ ’’اب ہم آپ کو نہیں چاہتے‘‘۔
تجزیہ نگاروں کے نزدیک بھارت کے عوام نے بھارت کو اور بھارتی جمہوریت اور آئین کو ایک بدتر صورت حال سے بچالیا ہے۔ جیسا کہ مودی کا 400 نشستیں جیت کر اپنی پالیسیوں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا ارادہ تھا۔ اور عوام میں یہ خیال عام تھا کہ اس دفعہ مودی بڑی اکثریت سے جیت کر بھارتی آئین کو بدل دیں گے۔ یہ اقلیتوں کے لیے تشویش ناک بات تھی کیونکہ آئین انہیں سازگار ماحول اور حقوق عطا کرنے کا ضامن ہے۔ نظر آرہا تھا بی جے پی کی ہندوتوا اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کی وفاقیت کمزور ہورہی تھی۔ مودی کی آمریت کو بھارتی عوام نے پسند نہیں کیا۔ مودی نے اپنی انتخابی تقریروں میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ محاذ بنا رکھا تھا۔ ایودھیا کے مندر کے افتتاح کو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنا کر ہندوئوں کو ووٹ کے لیے رجھایا۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کا ذکر کیا لیکن اس کا وہ اثر نہیں ہوا جس کی انہیں توقع تھی۔ بی جے پی کی بھارت کی انتخابی ریلیوں میں مسلمانوںکو باقاعدہ نشانہ بنایا، مودی اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے اس قدر ہٹ دھرم تھے کہ گزشتہ لوک سبھا میں جب حکومت کی متنازع پالیسیوں کے خلاف اپوزیشن کے ارکان احتجاج کرتے تھے تو انہیں ایوان میں معطل کردیا جاتا تھا۔ تقریباً 150 اپوزیشن کے اراکین کو ایوان میں معطل کیا گیا۔ امکان ہے کہ مودی تیسری دفعہ وزیراعظم بن سکیں گے لیکن اب انہیں حکومت بنانے کے لیے دیگر پارٹیوں سے اتحاد کرنا پڑے گا، یوں وہ کمزور وزیراعظم ہوں گے جو اپنی متنازع پالیسیوں کا نفاذ نہیں کرسکیں گے۔ اور نہ ہی اپوزیشن کے خلاف پہلے کی طرح کارروائیاں کرپائیں گے۔ انتخابی نتائج عوام کی طرف سے مودی کو اپوزیشن کی مضبوط بیڑیاں پہنانے کی کوشش ہے، یہی جمہوریت کا حسن ہے، انتخابات کی چھلنی خود ہی کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کردیتی ہے بشرطیکہ کہ انتخابات منصفانہ ہوں نہ کہ محکمانہ۔