اقبال؍ فارسی کلام

252

دنیا کے نظام کی بنیاد خودی
چون زمین بر ہستی خود محکم است
ماہ پابند طواف پیہم است
مطلب: چونکہ زمین نے اپنی ہستی یعنی خودی مضبوط رکھی ہے اس لیے چاند اس کے گرد مسلسل چکر لگانے کا پابند ہو گیا ہے۔
ہستی مہر از زمین محکم تر است
پس زمین مسحور چشم خاور است
مطلب: سورج کی خودی زمین کی خودی سے زیادہ مضبوط ہے لہٰذا زمین مشرق کی آنکھ یعنی سورج کی گرویدہ ہے یعنی اس کے گرد چکر لگانے لگی۔
جنبش از مژگان بردشان چنار
مایہ دار از سطوت او کوہسار
مطلب: چنار کے درخت کی دل کشی پلکیں جھپکنے کی فرصت نہیں دیتی (انسان کی آنکھ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے) پہاڑ اس (چنار) کی شان و شوکت سے مالا مال ہے (اس کی سطوت اپنی دولت سمجھتے ہیں )۔
تار و پود کسوت او آتش است
اصل او یک دانہ گردن کش است
مطلب: اس (چنار) کے لباس کا تانا بانا آگ ہے جبکہ اس کی اصل ایک گردن کش بیج ہے۔ (جس میں گردن اونچی رکھنے کی ہمت ہے)۔
چوں خودی آرد بہم نیروئے زیست
می کشاید قلزمے از جوئے زیست
مطلب: جب خودی زندگی کی قوت و طاقت متجمع کر لیتی ہے تو وہ زندگی کی ندی سے ایک بے کراں سمندر جاری کر دیتی ہے۔