اس وقت موسم گرما کا راج ہے، ہر اک گرمی کھائے آتش بیان ہوا پڑا ہے، گرمی کا پارہ ہر سو چڑھا ہوا ہے تو ریاست سے لے کر سیاست تک اس جملہ کی زد میں ہے کہ پسینہ پوچھیے اپنی جبیں سے، معاف کیجیے یہ پسینہ جو اداروں کی ایڑی چوٹی تک بہہ رہا ہے یہ حکمرانوں کی ندامت کا ہرگز نہیں ہے۔ یہ اعمال کی ضمیر تک یلغار کا تو ہوسکتا ہے کہ تم کیا کررہے اور کیوں دھوکا اور جھوٹے وعدوں، فریب کے جھانسے میں قوم کو الجھائے ہوئے ہو۔ کہتے ہیں کہ احادیث بتاتی ہیں کہ جہنم نے ربّ سے شکایت کی کہ حدت سے اُس کے ایک حصے کو دوسرا حصہ چاٹ رہا ہے، مجھے سانس لینے کی اجازت مرحمت کیجیے، ربّ نے اس کو سانس لینے کی اجازت دی اب وہ سانس لیتی ہے تو دنیا کی گرمی کا ایک حصہ بھی نگل لیتی ہے یوں موسم سرد ہوجاتا ہے اور جب وہ سانس خارج کرتی ہے تو دنیا آتش کدہ کی صورت بن کر یہ پیغام دیتی ہے کہ جہنم کی آگ سے بچنے کا سامان کرلو جس کا دیباچہ موسم گرما ہے۔
جہنم تو سانس اُگل رہی ہے اور موسم گرما بہت کچھ بتا رہا ہے۔ گرمی کا معاملہ تو روز اوّل سے روز ابد تک کا سلسلہ رہے گا مگر حکمران اور ادارے کیوں لوزدہ ہو رہے جو لوٹ رہے ہیں اور ان کی آتش بیانی ایک دوسرے کے کپڑے اُتار کر برہنہ کررہی ہے کچھ ہانپ رہے تو کچھ معلوم خوف سے کانپ رہے ہیں، گرمی ٔ اعمال نے انہیں بدحال کردیا ہے۔ بجٹ سر پہ ہے کیا رعایت وہ بدحال قوم کو دے سکتے ہیں؟ پانی کی ہانڈی چڑھا کر طفل تسلی دیں یا مردہ قوم کا کفن بھی اُتار کر اپنے آقا آئی ایم ایف کے مطالبات اور اپنی ہوس کی آگ پوری کریں۔ کچے کے علاقے کے درخت جو تسبیح خواں تھے یار لوگوں نے ڈاکوئوں کے ہاتھوں یوں کٹوا دیے کہ وہ خود کٹواتے تو کلہاڑی والے پرچم کے ورکر اور سندھ کے لواحقین سراپا احتجاج ہوتے اب فارمنگ منصوبہ کے لیے میدان درختوں سے پلان کے تحت پاک ہے، کروڑوں درختوں کا قتل عام اور لاکھوں ایکڑ کچے کی زمین پر قبضوں نے موسم گرما کو بھڑکا دیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ درخت گرمی کو جذب کرکے موسم کو آپے میں رکھتے تھے سو نہ رہے۔ درختوں کی آہ بھی سیاپا بنی ہوئی ہے اور عوام الناس بھن رہے اور حکمران وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ذریعے مرے پہ سو درے اس لیے مار کر دیکھ رہی ہے کہ آیا قوم کومہ میں ہے یا دم توڑ چکی ہے۔
کہا جارہا ہے صبر کرو تین سو یونٹ مفت بجلی کا وعدہ حور ہے جو ابھی کچھ دور ہے۔ کچھ بڑے بوڑھے یہ بھی بتاتے ہیں کہ جنت میں ایک مرتبہ سردی کا اثر بڑھ گیا تو انہوں نے چند احباب کو جہنم سے کچھ آگ لانے کے لیے بھیجا وہ جہنم کے ایک کونے سے دوسرے کونے گئے مگر انہیں آگ نظر نہ آئی تو انہوں نے لوٹ کر جنت کے ساتھیوں کو خبر دی کہ ہمیں آگ نہیں ملی تو سینئر جنتی نے کہا کہ جہنم میں ہر اک اپنے اعمال کی آگ لایا ہے تمہارے حصے کی آگ وہاں کیسے ہوگی! ملک میں جو بدامنی، لوٹ، رشوت ستانی کی آگ جل رہی ہے یہ کہیں عوام الناس کے اعمال کی آگ تو نہیں ذرا سوچیے۔ سندھ جو باب الاسلام ہے اس عنایت پر شکر کے بجائے کفر کی راہ پر گامزن ہے اس صوبہ میں کچھ بدبخت دھرتی باسی کے نام پر غیر مسلموں کو بھائی اور ہجرت کرکے آنے والے کو دوائی قرار دیتے ہیں دور کیوں جائیں بلاول زرداری، مراد علی شاہ کی مندر یاترا زیادہ پرانی بات نہیں، مساجد ان کی راہیں تک رہی ہیں یہ وہاں دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں۔ کہتے ہیں لالچ اور خوف بڑی بلائیں ہیں۔
ہاں تو گرمی کے موسم کی بات ہورہی ہے، سندھ کا خطہ جہنم کدہ بنا ہوا ہے اور جہنم کی طرح اس کی تقسیم بھی محسوس ہوتی ہے۔ جیکب آباد، کشمور کا علاقہ اترادی جو بدامنی سے دہک رہا ہے وہاں کا ٹمپریچر جو عرصہ دراز سے ہائی ہوا کرتا تھا اب بھی ترقی پزیر ہے مگر ضلع بے نظیر آباد کی گرمی کو کیا ہوا یہ ضلع جو صوبہ سندھ کے نقشے میں قلب کے مقام پر واقع ہے یہاں گرمی کی شدت کلیجہ چاٹ رہی ہے اور دل کی دھڑکنوں کو مات دے رہی ہے، آپ حیران مت ہوں ماہ اپریل 2016ء میں جب نوابشاہ میں گرمی کا درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ کو جا پہنچا تو دنیا بھر کے ماہرین موسمیات چلا اُٹھے کہ دنیا کی تاریخ میں ماہ اپریل میں کبھی اتنی گرمی نہیں پڑی۔ یہ تو معلوم نہیں کہ یہ ’’عذاب‘‘ اس ضلع پر کن ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ
تھا مگر اب بھی کچے کے ڈاکوئوں کے علاقہ جیکب آباد، کشمور و دیگر اترادی علاقہ اور پکے کے ڈاکوئوں کے علاقہ ضلع بے نظیر آباد کی گرمیوں میں کانٹے کا مقابلہ ہے اور انیس بیس کا فرق ہے۔ کچے کے علاقے میں تاوان کا سکہ چل رہا ہے تو بے نظیر آباد میں مشتبہ طور پر ہائوس کا خرچہ زوروں پر ہے تو پیسے کی گرمی رنگ دکھا رہی ہے اور اس بھٹی کے ایندھن جو ووٹر ہیں سوکھے کے ساتھ گیلے کی طرح سزوار ہیں، اب گرمی کا تدارک بھی ہے جس کی باگ پکے کے ڈاکوئوں کے ہاتھ ہے وہ اووربلنگ اور لوڈشیڈنگ سے گرمیوں کے مارے صارفین کی خوب خبر لے رہے ہیں اور سبیلوں کی صورت بلدیاتی ادارے پانی پلا کر مار کے لیے تیار کررہے ہیں۔ ڈیم بنا کر پانی سے بجلی بنانا حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کے پیٹ پر لات کے مترادف ہے چونکہ اُن کے بجلی کے پلانٹ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کی صورت خوب لوٹ رہے ہیں، عوام نے مایوس ہو کر سولر سسٹم کے ذریعے حل ڈھونڈا تو ان لٹیرے مالکانِ بجلی کے پیٹ میں مروڑ ہوگئی اب بات ہورہی ہے کہ یہ کچھ ہوگیا تو ہمارا کیا بنے گا؟ سو اب سورج کی توانائی پر بھی ٹیکس لگانے کی تیاریاں ہیں۔ ہاں تو یہ گرمی جو بڑھتی جارہی ہے ہر اک اپنی توجیہہ پیش کررہا ہے مگر اکثریت کی رائے ہے کہ یہ ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہے جو درختوں کی کٹائی سے ہو یا فیکٹریوں کے اخراج سے، یہ اللہ کا غضب ہے جو معاشرے پر مسلط ہے کہ انہوں نے جھوٹے ناخداوئوں کو تسلیم کرلیا، کیا جہاں ظلم زیادہ ہے وہاں گرمی کا ستم زیادہ ہے؟