اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں قائم ایک تھنک ٹینک ’’امپیکٹ‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب کی درسی کتب سے فلسطین کے نقشے اور ذکر رفتہ رفتہ غائب ہونے لگے ہیں۔ امپیکٹ کی یہ رپورٹ سعودی نصاب میں گزشتہ پانچ برس میں آنے والی تبدیلیوں کی تفصیل پر مبنی ہے۔ جس کے مطابق 2019 اور 2024 کے درمیان شائع ہونے والی 371 نصابی کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان سے ہٹائے گئے مواد کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بارہویں جماعت کی ایک کتاب میں صہیونیت کو نسل پرست تحریک قراردیا گیا تھا تاہم تازہ نصاب میں یہ حصہ شامل نہیں۔ اسی طرح ایک اور نصابی کتاب سے فلسطین کاذ کے بارے میں ایک پورے باب کو ہٹایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پانچویں اور نویں جماعت کی سماجی علوم کی کتابوں کے نقشوں پر سے فلسطین یا اسرائیل کا نام ہٹایا گیا ہے۔ 2022 سے پہلے ان نقشوں پر فلسطین کا لفظ تحریر ہوتا تھا۔ یوں صورت حال کمال احمد صدیقی کے اس باکمال شعر کی مانند ہے
باتیں جو تھیں درست پرانے نصاب میں
ان میں سے ایک بھی تو نہیں ہے کتاب میں
نصاب تعلیم سے فلسطین کی اصطلاح اور نقشوں کو غائب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عرب دنیا اب اپنی آنے والی نسلوں کو فلسطین کے بوجھ اور قید سے آزاد کرکے نئے دور میں نئے ذہن کے ساتھ داخل کرنا چاہتا ہے۔
یوں تو عرب دنیا نے فلسطین کو اسی وقت بوجھ جان کر پٹخ ڈالنے کا آغاز کیا تھا جب مصر کے صدر انوارالسادات نے کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کے صدر بیگن کے ساتھ قبول وایجاب کا معاہدہ کرکے خود کو فلسطین کاز سے الگ کر لیا تھا۔ یہ سلسلہ اُردن کے شاہ حسین سے ہوتا ہوا مزید آگے بڑھتا چلا گیا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سعودی عرب نے بھی آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے فلسطین کی یادوں اور تصورات کو محو کرنے کا کام سنبھال لیا ہے۔ نائن الیون کے وقت ہی یہ بات طے ہوگئی تھی کہ اس واقعے کے پیچھے مسلم دنیا کے مشتعل جذبات ہیں اور ان جذبات کا منبع فلسطین ہے اور ان کی قیادت سعودی مفکرین کے پاس ہے۔ سعودی عرب سے چلنے والا رواج دنیا بھر کے مسلمانوں کا فیشن بن جاتا ہے اور وہاں سے چلنے والے تصورات پوری مسلم دنیا کو کہیں کم تو کہیں زیادہ متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس لیے مسلمان دنیا کو بدلنا ہے تو اس کے لیے سعودی عرب کو بدلنا ہوگا۔ نائن الیون کے واقعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس سوچ کے تحت سعودی عرب میں جمہوریت کا سودا تو زیادہ کامیابی سے فروخت نہ ہوسکا مگر لبرل ازم کے ٹھیلے اور کاروبار کی رونقیں دوبالا ہوگئیں۔ امریکا نے جمہوریت پر سمجھوتا کرکے لبرل ازم پر معاملات طے کر لیے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ لبرل ذہن جمہوریت کو ازخود ایک پورے کلچر کے ساتھ قبول کرتے چلے جائیں گے۔
فلسطین کو چونکہ مشرق وسطیٰ میں شدت پسندی کی جڑ کہا گیا اس لیے مسئلہ فلسطین کو لوح حافظہ سے اس طرح گم کیا جانا مقصود ہے کہ مسلم دنیا کی حساسیت از خود کم اور آخر پر ختم ہو کر رہ جائے۔ سعودی عرب ایک آزاد ملک ہے اسے اپنی فلسطین پالیسی اور نصاب تعلیم کے تعین کا پورا حق حاصل ہے۔ کوئی دوسرا شخص نظریے یا مذہب کے نام پر سعودی عرب کو اپنے متعین کردہ راستے سے ہٹانے کا حق نہیں رکھتا مگر یہ معاملہ فلسطین تک محدود نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے خود ہمارے خطے سے آکر ملتے ہیں۔ کشمیر جنوبی ایشیا کا فلسطین ہے۔ پہلے اگر اس میں کوئی شک شبہ تھا بھی تو نائن الیون کے بعد بھارت اسرائیل اور امریکا کی شراکت داری نے یہ حقیقت عیاں کر دی۔ نائن الیون کے بعد بھارت نے نہایت مہارت کے ساتھ امریکا اور اسرائیل کو باور کرایا کہ فلسطین اور کشمیر میں ان کے لیے مشکلات اور مصائب کی وجہ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ ایک ذہن اور سوچ کا مخصوص زاویہ ہے۔ دونوں مقامات مسلم انتہاپسندی کے آتش فشاں ہیں اور دونوں وقفے وقفے سے لاوہ اُگلتے ہیں۔ دونوں کی تحریکیں ایک دوسرے کے اثرات قبول کرتی ہیں۔ فلسطینی جہاز اغوا کرتے ہیں تو کشمیری بھی اسی کام پر لگ جاتے ہیں۔ فلسطینی خودکش جیکٹ پہنتے ہیں تو کشمیری بھی خودکش بن جاتے ہیں۔ فلسطینی پتھر بازی اور غلیل کا استعمال کرتے ہیں تو چند برس بعد کشمیری نوجوان بھی پتھر اور غلیل تھامے نظر آتے ہیں۔ اس لیے بھارت امریکا اور اسرائیل تینوں کا بھلا اسی میں ہے کہ اس مسلم انتہا پسندی کا مقابلہ بھی مشترکہ طور پر کیا جائے۔ اس کے بعد سے تینوں نے باہمی تعاون کے راستوں پر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ رفتہ رفتہ پاکستان کے نصاب سے کشمیر کا نام اور نقشہ یونہی حذف ہونا شروع ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں کشمیر کے حوالے سے غیر جذباتی اور غیر حساس بن کر اُبھرتی رہیں۔ حساسیت آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتی رہے گی تو مسئلہ بھی موجود رہے گا کسی بھی وقت خرمن ِ امن کے لیے چنگاری بن جائے گا۔ یوں بھی نصاب سازی سمیت پاکستان کی فیصلہ سازی پر آئی ایم ایف کا کنٹرول ہوچکا ہے اور آئی ایم ایف کسی طور بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان کا نصاب کشمیر کے بارے میں حساس نسلیں اور مخصوص ذہن پیدا کرتا رہے۔ آئی ایم ایف کے ذریعے تو سعودی عرب کی نسبت پاکستان کو کنٹرول کرنا زیادہ آسان ہوگیا ہے کیونکہ پاکستان تو معاشی طور پر قریب قریب گھٹنوں پر آچکا ہے۔