جو دنیا میں آیا ہے اُسے ایک روز واپس بھی جانا ہے اور اپنے ربّ کے حضور پیش ہونا ہے۔ کوئی بادشاہ ہے یا فقیر، جج ہے یا عام آدمی، جو بھی دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن لوٹ کر جانا ہی ہے، کوئی بستر پر مرتا ہے اور کسی کے نصیب میں شہادت لکھی جاتی ہے، کوئی زہر پیتا ہے اور کوئی زہر پلاتا ہے۔ یہ دو ہی گروہ ہیں۔ ڈاکٹر نذیر شہید جماعت اسلامی کے کارکن، عاشق رسولؐ، سیرت اور کردار کی ایک جیتی جاگتی تصویر، بھٹو دور میں کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں شہید کر دیے جاتے ہیں اور آج تک قاتل پکڑے نہیں گئے ہاں البتہ یقین ہے کہ وہ اللہ کی پکڑ میں ضرور آئیں گے یا آچکے ہوں گے۔ ملکی تاریخ میں جماعت اسلامی مقصد حیات سامنے رکھ کر اپنے کارکن کی تربیت کرنے والی جماعت ہے، اس کی دعوت کیا ہے، کلمہ حق کہنا اور اللہ کی رضاء کے لیے کہنا۔
سیاسی جماعتوں میں ایک پیپلز پارٹی ہے جو جیل، قید اور کوڑوں اور پھانسی کا واویلہ کرتی ہے، جماعت اسلامی اس ملک کی دوسری جماعت ہے جس کے سربراہ کو موت کی سزا سنائی گئی، وہ تھے مولانا مودودی، پیپلزپارٹی کے بانی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور اس پر عمل درآمد بھی ہوا، مگر دونوں کے مقدمات میں فرق تھا، بھٹو پر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا الزام تھا، مولانا مودودیؒ کو قادیانیوں کے خلاف تحریک کے زمانے میں ایک فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی جس طرح مولانا کلمہ حق ربّ کی رضا کے لیے کہتے تھے اسی طرح ڈاکٹر نذیر احمد بھی انہی کے تربیت یافتہ تھے وہ بھی کلمہ حق، اللہ کی رضا کے لیے ہی کہہ رہے تھے، پیپلزپارٹی جیل، قید کوڑوں کا بہت واویلہ کرتی ہے، مگر جماعت اسلامی کی اپنی ایک تاریخ ہے یہ واویلہ نہیں کرتی، پیپلزپارٹی نے عدالت عظمیٰ میں بھٹو پھانسی کیس پر ریفرنس بھیج کر اپنے حق میں ایک رائے بھی لے لی ہے، دوسری جانب ڈاکٹر نذیر شہید کے سیاسی وارث ہیں اور یہ سیاسی قبیلہ اور قافلہ سخت جاں بھی کوئی کم قوت والا نہیں ہے، مگر اس نے کوئی واویلہ نہیں مچایا۔
8 جون 1972 کو انہیں شہید کردیا گیا، ہاں البتہ ڈاکٹر نذیر احمد شہید کیس میں اسے ابھی تک انصاف نہیں مل سکا، انا للہ وانا الیہ راجعون! انہیں انصاف دلانے کے لیے ڈاکٹر فرید پراچہ نے عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست دائر کی ہوئی ہے نہ جانے اس کی شنوائی کب ہوگی؟ انصاف، حکومت کی روح ہے۔ ’انصاف تک رسائی‘ کی اصطلاح جن معنوں میں سمجھی اور استعمال کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی شخص اور اس کی ذات یا جائداد کے ساتھ کی گئی نا انصافی کے ازالے کے لیے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کی خاطر عدالتی اداروں سے رجوع کیا جائے۔ پاکستان کے آئین کے دیباچہ میں، جو بنیادی طور پر 21 مارچ 1949ء کی ’قرارداد مقاصد‘ پر مبنی ہے، جسے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا، یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ آئین بنیادی حقوق کی ضمانت دے گا، جن میں حیثیت، مواقع اور قانون کے سامنے مساوات و برابری ہوگی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل ہوگا۔ سوچ، اظہار رائے، عقیدہ، ایمان، عبادت اور اجتماع اور تنظیم سازی کی آزادی ہوگی، بشرطیکہ وہ قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں ہوں۔ اس میں عدلیہ کی خود مختاری کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جو انصاف تک رسائی کے لیے ایک ناگزیر لازمہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۷۳ ریاست کے لیے یہ ہدف متعین کرتا ہے کہ وہ سستا اور تیز تر انصاف کو یقینی بنائے۔ یہ سب کچھ آئین میں ہے مگر جماعت اسلامی کی دعوت بہت بلند ہے، یہ دنیاوی بات نہیں کرتی، اپنے کارکن کو اللہ کے خوف کے ساتھ جینے اور ربّ العالمین کی رضا میں جان دینے کے لیے تیار کرتی ہے اور فرق بہت نمایاں ہے اس کا پیغام یہی ہے کہ دنیاکی زندگی، سطح بیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے۔
کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے، بس اسی دنیا میں ہے۔ اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے، بس یہیں کرلو۔ کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوش حالی کے نشے میں بدمست ہوکر اپنی موت کو بھول جاتا ہے، اور اس خیالِ خام میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ’اُس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے، کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کرکے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصود بالذات سمجھ لیتا ہے اور ’معیارِ زندگی‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، خواہ نتیجے میں اس کا معیارِ آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دُنیوی خوش حالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے۔ ہر وہ طریقہ حق ہے، جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو، اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے، باطل ہے، کوئی اسی خوش حالی کو مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدئہ کلیہ بناکر بیٹھ جاتا ہے کہ ’جس کی دُنیا خوب بن رہی ہے۔ خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے اور جس کی دُنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے‘۔
ڈاکٹر نذیر احمد بھی ایک علمی اور مذہبی خانوادے میں پیدا ہوئے یہ خاندان فلاحی، اصلاحی اور خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش رہا اور آج بھی ہے ڈاکٹر نذیر احمد شہید بھٹو حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف تھے قومی اسمبلی میں اس کے خلاف ایک توانا آواز تھے نوجوانوں کی فکری رہنمائی اور ذہنی تربیت میں اہم کردار ادا کر رہے تھے پورے معاشرے کو رفاہی اور دینی کاموں کو منظم کرتے تھے اسی پاداش میں انہیں گولی مار کر شہید کردیا گیا تھا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کرے، آمین!