دل کی باتیں، اہل دل سے

449

نہتے اہل فلسطین پر دجال صفت اسرائیل کے بے محابہ مظالم کا طویل اور لامتناہی سلسلہ دیکھ کر دل درد سے اور آنکھیں اشکوں سے بھر جاتی ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے جاں بحق مرد و خواتین، کمسن معصوم بچوں کے کٹے پھٹے اجسام، لوتھڑوں میں تبدیل ہوجانے والے بدن ہر صاحب دل کا کلیجہ دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ زخمی اور شہید ہونے والے بچوں، بھوک اور پیاس سے ترپتے بلکتے بیگناہ، ستم رسیدہ فلسطینیوں کو یوں بے بسی اور بے کسی کے عالم میں دیکھ کر سچ تو یہ ہے کہ ایک طرح سے دل زندگی ہی اُچاٹ ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں نام نہاد جدید، مہذب دنیا خصوصاً اسلامی ممالک کے بے حس، بے حمیت اور ڈھیٹ حکمرانوں کی لاتعلقی اور فلسطینی مظلوم عوام سے برتا جانے والا ظالمانہ اغماض یک گو نہ حیرت اور استعجاب میں مبتلا کردینے کے لیے بہت زیادہ ہے۔ انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ کیا یہ بے غیرت اور بے حس حکمران اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ تا ابد اسی طرح سے حکومت کرتے رہیں گے! نہیں ہرگز نہیں، وہ وقت بہت قریب ہے کہ جب اسلامی ممالک کے یہ ڈھیٹ اور ہوس اقتدار میں مبتلا حکمران موت کے گھاٹ اُتر جائیں گے اور روز محشر بے گناہ شہید ہونے والے اہل فلسطین ان کا گریبان تھام کر ان سے خواجہ میر درد کی زبان میں یہ سوال کریں گے کہ

ہر زخم جگر اور محشر سے ہمارا
فریاد طلب ہے تیری بے داد گری کا

پاکستانی امریکن ڈاکٹرز کے ایک 30 رکنی وفد نے حال ہی میں اسرائیلی بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن جانے والے فلسطین کا دورہ کرکے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ حد درجہ تکلیف دہ اور ناگفتہ بہ ہے۔ اس وفد کی ایک رکن ڈاکٹر حنا چیمہ کے مطابق اہل فلسطین کی حالت اتنی زیادہ ابتر اور خراب ہے کہ اسے بیان کرنا بھی ایک طرح سے ناممکن ہے۔ 80 فی صد سے زائد فلسطین اس برے طریقے سے تباہی و بربادی سے دوچار ہوچکا ہے کہ اب اس کی ازسرنو تعمیر محض ایک خواب لگتا ہے۔ لاکھوں فلسطینی مرد و زن اور بچے بھوک، پیاس اور شدید احساس عدم تحفظ سے دوچار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ برے حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ (رپورٹ کا مفہوم اور خلاصہ) اگر ایک طرف اسلامی ممالک کے حکمران بشمول حکومت پاکستان کی جانب سے قابل مذمت بے اعتنائی اور بے حمیتی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب اہل فلسطین کے لیے جماعت اسلامی پاکستان بھرپور انداز میں سرگرم عمل ہے۔ جیکب آباد جیسے پسماندہ اور چھوٹے ضلع سے کارکنان جماعت نے امیر ضلع دیدار علی لاشاری کی زیر قیادت تقریباً 25 لاکھ روپے کا فنڈ عوام کی مدد سے اکٹھا کرکے اہل فلسطین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ 31 مئی کو بھی ملک بھر کی طرح یہاں پر ایک بڑا احتجاجی مارچ مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر شدید ترین گرمی اور تپش میں کیا جاچکا ہے جس میں مظلوم اہل فلسطین سے زبردست یکجہتی کے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔

جماعت اسلامی ہر سطح پر ہر انداز میں ایک اور بیرون ملک اپنے محدود وسائل کے باوصف اپنی جملہ صلاحیتوں کو ضرورت مندوں کے لیے وقف کیے ہوئے ہے۔ الخدمت فائونڈیشن ضلع گھوٹکی جماعت اسلامی کی طرف سے شہید صحافت نصراللہ گڈانی کے اہل خانہ کی کفالت اور زیر تعلیم بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کیے جانے کے اعلان کو ہر سطح پر بہت مثبت انداز میں سراہا گیا ہے۔ صوبہ سندھ میں ایک طرف آج کل پڑنے والی شدید ترین گرمی اور اس پر مستزاد گھنٹوں پر محیط طویل اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بجلی اور (اب گیس کی بھی) لوڈشیڈنگ نے بلامبالغہ عوام کی زندگی اجیرن کر ڈالی ہے۔ سرکاری پرائس کنٹرول کمیٹیاں عملاً اپنا کووجود کہیں پر بھی نہیں رکھتیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزمرہ استعمال کی اشیائے صرف تاجر حضرات من مانی قیمتوں پر فروخت کررہے ہیں جنہیں کوئی روکنے یا ٹوکنے والا نہیں ہے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نہ صرف حکومت سندھ کے ذمے داران بلکہ ضلعی اور تحصیل سطح کے سرکاری اور انتظامی افسران بھی سرتاپا کرپشن میں بہت بُری طرح سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ بدعنوانی کی غلاظت نے لگ بھگ ہر سرکاری محکمے کے سرکاری عمال کو کچھ اس برے طریقے سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ عوام کے جائز کام تک بھی نہیں ہوپارہے ہیں۔ انسداد بدعنوانی کے لیے قائم کردہ حکومت سندھ کا سرکاری محکمہ اینٹی کرپشن خود ہی کرپشن کرنے کے نت نئے ریکارڈ قائم کرنے میں تندہی کے ساتھ مصروف ہے اور جگ ہنسائی ہورہی ہے کہ یہ عجیب سا طرفہ تماشا ہے۔ حال ہی میں سندھی پرنٹ، سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے توسط سے اہل سندھ کو معلوم ہوا ہے کہ محکمہ انسداد بدعنوانی یا محکمہ اینٹی کرپشن خود ہی بری طرح سے بدعنوان اور کرپٹ عناصر کے زیر اثر ہے تو وہ بھلا پھر بدعنوانی کی روک تھام کیسے اور کیوں کر کرپائے گا۔

محکمہ اینٹی کرپشن کے سابق چیئرمین فرحت جونیجو کے مطابق مبینہ طور پر صوبائی وزیر خود ہر ماہ 7 کروڑ روپے کی رشوت کی رقم وصول کرتے ہیں اور ایک پرائیویٹ فرنٹ مین شہریار مہر اس سارے ادارے کو چلا رہا ہے۔ صوبائی وزیر ہر ڈپٹی ڈائریکٹر سے 15-15 لاکھ روپے اور سرکل آفیسر سے 5 تا 10 لاکھ روپے رشوت لیتے ہیں۔ لایعنی قبائلی جھگڑے اور ڈاکوئوں کی جانب سے مغویوں پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو وائرل کرنے کا سلسلہ بھی پورے زور و شور سے جاری ہے۔ حکومت اور قانون کی عمل داری کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ قبائلی جھگڑوں میں بے گناہ بچوں اور خواتین کو قتل کیا جانا ایک بے حد تشویشناک اور المناک رجحان ہے۔ گزشتہ روز ہی کندھ کوٹ بخشا پور میں بھنگوار برادری کے دو گروہوں کے مابین تصادم میں بلا جواز تین کمسن بچوں اور ایک خاتون کو بھی فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ 29 مئی بروز بدھ کو سندھ میں شدید ترین بدامنی کے اس عالم میں جماعت اسلامی سندھ کی جانب سے ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ کراچی کا بڑے پیمانے پر انعقاد بے حد خوش آئند ہے اور یہ قدم درحقیقت بارش کے پہلے قطرے کے مصداق ثابت ہوسکتا ہے۔ مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کی زیر صدارت اس کانفرنس میں ان سمیت تمام شرکا اسد اللہ بھٹو، امیر صوبہ محترم محمد حسین محنتی صوبائی سیکرٹری اطلاعات مجاہد چنا، حلیم عادل شیخ، ایاز لطیف پلیجو، گلزار سومرو، جگدیش آہوجا اور دیگر نے سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور ڈاکو راج کو حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے 2 جون کو بدامنی کے خلاف سندھ بھر میں احتجاج کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل صد ستائش ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس کانفرنس کے ایجنڈے میں بے مقصد اور لایعنی قبائلی جھگڑوں کے خاتمے کا ایجنڈا بھی شامل کردیا جاتا اور یہ کانفرنس بجائے کراچی کے سکھر میں منعقد کی جاتی، کیوں کہ سکھر سے ملحق اضلاع گھوٹکی، خیرپور، لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد، قمبر شہداد کوٹ، کندھ کوٹ، کشمور قبائلی جھگڑوں اور ڈاکو راج سے بہت بری طرح متاثر ہیں۔ سندھ کے حکمران کھال مست اور حال مست ہیں، ان سے ماسوائے بدنظمی اور بدعنوانی کے نت نئے ریکارڈ قائم کرنے سے کوئی مثبت توقع قائم کرنا محض وقت کا زیاں ہے۔