ہمارے دانشور دوست کہتے ہیں کہ تحریک پاکستان کی سیاسی باقیات کا تو جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قابض ہوتے ہی صفایا کردیا تھا۔ پھر اس نے فوجی نرسری میں سیاستدان تیار کیے جو اس کی کنونشن مسلم لیگ میں اس کے دست و بازو بنے رہے۔ ان سیاستدانوں میں جسے ملک گیر بلکہ عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو تھے جو جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے وہ ان کے حقیقی باپ تو نہ تھے لیکن سیاسی باپ ضرور تھے۔ بھٹو اپنے سیاسی باپ کے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی ذہانت کا بے دریغ استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ کنونشن مسلم لیگ کو سرکاری سطح پر منظم کیا جائے اور ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ضلع کی سطح پر کنونشن مسلم لیگ کو منظم کرنے اور عوام میں مقبول بنانے کی ذمے داری سونپی جائے۔ جنرل ایوب خان سیاسی اعتبار سے زیادہ دور اندیش تھے۔ انہوں نے بھٹو کی یہ تجویز تو منظور نہ کی البتہ ملک میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام قائم کرکے عوام کو اپنے ووٹوں سے براہ راست اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حق سے محروم کردیا۔ اُس وقت مشرقی پاکستان بھی پاکستان کا حصہ تھا اس کی آبادی مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے مقابلے میں چھے فی صد زیادہ تھی۔ جنرل ایوب خان نے اس اکثریت کو مساوی سطح پر لانے کے لیے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ’’ون یونٹ‘‘ میں مدغم کرکے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان مساوات قائم کردی۔ یعنی مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر اکثریت حاصل نہ رہی اور وہ مغربی پاکستان کے برابر ہوگیا۔ جنرل ایوب خان نے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت چالیس چالیس ہزار یونین کونسلیں قائم کیں اور ان کے ذریعے صدارتی انتخاب کا ڈراما رچایا۔ اس انتخاب میں جماعت اسلامی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان کے مقابلے میں اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈروں کے ہمراہ پورے ملک کا دورہ کیا، عوام نے ان کی پزیرائی کی، مشرقی پاکستان کے لوگوں نے ان کے ساتھ غیر معمولی عقیدت و احترام کا اظہار کیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے ان کی انتخابی مہم چلائی جبکہ جنرل ایوب خان کی انتخابی مہم کے انچارج ذوالفقار علی بھٹو تھے ان کی طرف سے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف نہایت بیہودہ اشتہاری مہم چلائی گئی اور ان کی ذات پر رکیک اخلاقی حملے کیے گئے۔ اس کے باوجود اگر صدارتی الیکشن آزادانہ ماحول میں ہوتا تو جنرل ایوب خان کی ناکامی نوشتہ دیوار تھی لیکن فوجی آمر نے بنیادی جمہوریتوں کا ایک ایسا محدود نظام وضع کیا تھا کہ اس میں ایسا ممکن نہ تھا۔ چناں چہ جنرل ایوب اپنے سرکاری گماشتوں کے ذریعے یہ الیکشن جیت گیا لیکن جو ’’شکست فاتحانہ‘‘ محترمہ فاطمہ جناح کو حاصل ہوئی اس کی تاب لانا فوجی آمر کے لیے ممکن نہ تھا۔ آخر یہی الیکشن اس کے زوال کی نوید ثابت ہوا اور وہ اقتدار پر اپنی گرفت قائم نہ رکھ سکا۔
جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ذوالفقار علی بھٹو اپنی وفاداری تبدیل کرکے اس کے ساتھی بن گئے اور ان کی یہ کوشش رہی کہ اقتدار کی جو بھی بندر بانٹ ہو اس میں انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ چنانچہ جب جنرل یحییٰ خان نے مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان برابری کے اصول اور ون یونٹ کو ختم کرکے 1970ء میں پہلے عام انتخابات کرائے تو اس کے پیش نظر اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ انتخابات میں کوئی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکے گی۔ سیاستدان آپس میں لڑتے رہیں گے اور وہ حکومت کرتا رہے گا لیکن اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ ون یونٹ ختم ہونے سے مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے اکثریت حاصل کرگیا اور شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے انتخابات میں کلین سوئپ کرکے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرلی۔ اب پاکستان میں حکومت بنانا عوامی لیگ کا حق تھا۔ شیخ مجیب الرحمن اس حق میں کسی اور سیاسی جماعت یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ساتھ شریک کرنے کے روادار نہ تھے، جبکہ بھٹو اور جنرل یحییٰ خان حکومت میں اپنے شیئر پر اصرار کررہے تھے۔ یہی اصرار اور دبائو اور طاقت کا استعمال سانحہ مشرقی پاکستان کا موجب تھا۔
مشرقی پاکستان کو بنگلادیش سے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ ہوگیا وہاں سیاسی استحکام نہ سہی لیکن معاشی استحکام بہرکیف ایک حقیقت ہے، اس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، بنگلادیش کا ٹکا پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈبل طاقت رکھتا ہے، اس کی صنعتیں ترقی کررہی ہیں اور اسے کسی معاشی دبائو کا سامنا نہیں ہے۔ ہمارے جو جرنیل یا سیاستدان مشرقی پاکستان کو ایک معاشی بوجھ سمجھتے تھے بنگلادیش نے ان کا یہ خیال غلط ثابت کردیا ہے۔ ہم مشرقی پاکستان کے سیاسی و معاشی بوجھ سے آزاد ہو کر بھی سیاسی و معاشی استحکام حاصل نہ کرسکے اور پاکستان اس وقت پوری دنیا میں اپنے دشمنوں کے استہزا کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس کے دشمن پیش گوئی کررہے ہیں کہ پاکستان اپنے تضادات کے سبب اکیسویں صدی کی تیسری یا چوتھی دہائی میں (خدانخواستہ) اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔ ہم موجودہ صورت حال سے اس لیے دوچار ہیں کہ ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اپنے اندر خود احتسابی کے عمل کو فروغ نہیں دیا۔ ہم نے اس عظیم سانحے کے اسباب و وجوہ معلوم کرنے کے لیے حمودالرحمن عدالتی کمیشن ضرور قائم کیا لیکن جب اس کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی تو مقتدر حلقوں نے اسے دبالیا۔ پاکستانی قوم کو اس کی ہوا تک نہ لگنے دی۔ رپورٹ میں جن جرنیلوں یا دیگر افراد کو اس سانحے کا مجرم قرار دیا گیا تھا انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔ اس رپورٹ پر ایک مدت تک پردہ پڑا رہا۔ پھر یہ اسمگل ہو کر بھارت جا پہنچی تو وہاں اسے شائع کردیا گیا۔ اس طرح اہل پاکستان کو بھی پتا چلا کہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کیا ہے اور اس میں کیا لکھا ہے۔ پھر پاکستان میں بھی گاہے گاہے اس کے اقتباسات شائع ہوتے رہے اور یہ رپورٹ سیاسی حلقوں میں زیر بحث آتی رہی۔ لیکن جس ادارے کو اس رپورٹ کی روشنی میں اپنا احتساب کرنا چاہیے تھا وہ اس سے بالکل لاتعلق رہا اور اس کی مقتدرہ نے اس سے کوئی عبرت حاصل نہ کی۔
اس وقت جبکہ پاکستان شدید سیاسی و معاشی بحران سے گزر رہا ہے تو حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ایک بار پھر موضوع بحث بن گئی ہے۔ ایک شخص نے قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرے تا کہ اسے پتا چلے کہ غداری کس نے کی تھی۔ آخر اس میں غلط کیا ہے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھارت یا بنگلادیش نے تیار نہیں کی یہ پاکستان کی اپنی تیار کردہ ہے جس کا مقصد اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا اور خود کو احتساب کے عمل سے گزارنا تھا۔ ہم ایک مدت تک احتساب سے نظریں چراتے رہے لیکن اب حالات تقاضا کررہے ہیں کہ احتساب کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ جو قومیں اپنا احتساب خود نہیں کرتیں، پھر قدرت خود ان کا احتساب کرتی ہے اور انہیں نمونہ عبرت بنادیتی ہے۔