سابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا خطاب چل رہا تھا اور وہ بہت کھل کر پاکستان کے عارضوں اور یہاں جاری تماشوں کی دردناک کہانی سنارہے تھے۔ ہر دور کے ’’نو مئی‘‘ اور ہر دور کے ’’غدار‘‘ کی الف لیلوی داستان بیان کر رہے تھے۔ وہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو ازبر کرنے اور عام کرنے کی حمایت میں دلائل دے رہے تھے۔ میرا پہلا تاثر تو یہی تھا کہ ڈاکٹر علوی کو کچھ وقت کے لیے پروفیسر علوی بن کر حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کا انڈیا ٹوڈے سے برآمد ہونے والا مسودہ لے کر نگر نگر شہر شہر نکل پڑنا چاہیے۔ عین اُسی لمحے میں اپنی کسی ضرورت کے تحت والد صاحب کا 1948 سے شروع ہونے والا وہ ریکارڈ چھان مار رہا تھا جب وہ تحریک پاکستان اور تحریک آزادی ٔ کشمیر کے سپاہی بن کر پندرہ سال کی عمر میں راولپنڈی آئے۔ جس اخباری تراشے کی تلاش تھی وہ تو نہ مل سکا مگر یہاں 1952 سے شائع ہونے والے ہفت روزہ آغاز کا کچھ ریکارڈ نظر گزرا جس میں والد صاحب کی سرگرمیوں کی تفصیلات درج تھیں۔
آغاز ہمارا گھریلو اور خاندانی پرچہ تھا جو والد صاحب کے ساتھ ہجرت کرنے والے ان کے چند کزنز نے مل کر شائع کیا تھا۔ یہاں والد صاحب کی اُردو اور فارسی نظمیں، عیدوں پر ان کے لکھے گئے قطعات، درد جدائی میں ڈوبے افسانوں کے ساتھ 12جون 1949 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کے نام ان کا ٹائپ شدہ میمورنڈم ملا جس میں کشمیر کے مسئلے کے ساتھ مہاجر طلبہ کے مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ یہیں اخبار کی سرخی تھی ’’پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل میسروی نے کشمیر پر چڑھائی سے انکار کر دیا تھا۔ پنڈت نہرو مشرق قریب میں سیاسی وفوجی اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ (چودھری غلام عباس 16فروری 1954) چودھری غلام عباس نے یہ بیان قائد اعظم سے ملاقات کی روشنی میں دیا تھا گویا قید سے رہا ہو کر کراچی پہنچ کر قائد اعظم سے ملاقات میں چودھری غلام عباس نے شکوہ کیا ہوگا کہ ہم آپ کا سری نگر اور جموں میں انتظار ہی کرتے رہ گئے اور جواب میں قائد اعظم نے ان سے اظہار بے بسی کیا ہوگا کیونکہ چودھری غلام عباس اس بیان میں کہہ رہے ہیں کہ یہ بات انہیں قائد اعظم سے مل کر پتا چلی ہے۔ ہفت روزہ آغاز کے کسی اگلے صفحے پر نظریں ایک نام پڑھ کر ٹھیر گئیں یہ 1954کے ’’قیدی نمبر 210‘‘ کی نظم ہے۔ قیدی نمبر تو میں نے یونہی لکھا ہے مگر نظم کا عنوان اور شاعر کا نام سن کر آپ بھی چونک جائیں گے۔ عنوان ہے ’’دامن بچاکے چل‘‘ نعیم صدیقی سینٹرل جیل لاہور۔ قیدی اور اس کے سنگین جرم پر بات کرنے سے پہلے نظم کا لطف لیجیے گا۔
اس بار گاہِ ناز کو منزل بنا کے چل
آنکھوں میں ان کا جلوۂ رنگیں بسا کے چل
ہر پھول آستیں میں ہے کانٹا لیے ہوئے
اس باغِ پُر بہار میں دامن بچا کے چل
اس دیس میں ظہورِ خودی پھر نہیں دوا
گر سر کٹا سکے تو یہاں سر اُٹھا کے چل
اک لغزشِ نگاہ میں ہے غارتِ حیات
فتنوں بھری فضائوں میں نظریں جھکا کے چل
گر حریت کے گیت ہی گانے کا ہو جنون
زنجیر قید اپنے لیے خود اُٹھا کے چل
پیشِ نظر ہے اگر ہے حقیقت کی جستجو
بت خانۂ خیال کو ٹھوکر بنا کے چل
(بشکریہ مشیر کراچی) یہ وہ نعیم صدیقی ہیں جو کسی شخص کو قتل کرنے، کسی کوٹھی میں ڈاکا ڈالنے یا کسی تاجر سے بھتا وصول کرنے کے جرم میں سینٹرل جیل لاہور میں قید نہیں تھے بلکہ یہ اپنے دور کے سزائے موت کے سب سے بڑا حقدار قرار پانے والے شہرہ آفاق مسلم مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھی اور ان کے پیغام کا نغمہ سرا تھے جو صرف قلم وقرطاس کے قیدی تھے۔ حد تو یہ جس شخصیت کو سزائے موت کا سب سے بڑا مستحق جانا اور گردانا گیا وہ قادیانی مسئلہ نامی ایک کتابچہ لکھنے کے جرم کا سزاوار تھا۔ تحریر وتقریر دلائل وبراہین مکالمے اور اپنی بات کہنے کا سب سے مناسب اور مہذب طریقہ ہے۔ اس کے بعد دوسرا طریقہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے والا بچتا ہے جب جیب سے قلم کی جگہ بغل سے بندوق برآمد ہوتی ہے۔ اس مہذب انداز سے ’’جنرل میسروی‘‘ کی روح خفا ہوگئی اور مولانا مودودی سزائے موت کے مستحق قرار پائے اور نعیم صدیقی نغمہ سرائی کی پاداش میں یعنی اس دور کے نومئی کے قیدی بن گئے۔ آج جب نعیم صدیقی مرحوم کے عزیز عرفان صدیقی نو مئی کو سقوط ڈھاکہ سے سنگین سانحہ بنا کر پیش کرتے ہیں تو خدا جانے سینٹرل جیل لاہور کے قیدی نمبر نامعلوم کی روح اس میسروی سوچ پر کیا سوچتی ہوگی؟ یہ پاکستان کا دائرے کا سفر ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ موٹیویشنل اسپیکر، ٹی وی اینکر، کرایہ کش قلم نگار، بزعم خود ماہر بیانیہ ساز اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ پاکستان کو اس حال تک پہنچانے کا ذمے دار کون ہے اور اس کے روز وشب کے پیروں میں میسروی زنجیر کون ڈالے ہوئے ہے کہ ایک قدم آگے اور دو پیچھے ہونا اس کا مقدر بن کر رہ گیا ہے۔ حالات واقعات مشاہدات اور تاریخ کے گہرے شعور سے جنم لینے والے بیانیوں کو مصنوعی بیانیہ سازوں کے ذریعے رد نہیں کیا جاسکتا۔ 1954 کے سینٹرل جیل لاہور کے شاعر قیدی نعیم صدیقی سے2024 کے مظفرآباد تھانے کے شاعر قیدی احمد فرہاد تک پون صدی کی اس مشق فضول کا حاصل یہی ہے کہ اس سے جس قدر جلد ہو جان چھڑا کر اگلی منزلوں کی طرف گامزن ہوا جائے۔