سندھ حکومت نے اپنے افسران کی اعلیٰ کارکردگی کے انعام کے طور پر ان کے لیے نئی اور مہنگی گاڑیاں خریدنے کے لیے باضابطہ منظوری دے دی ہے۔ یہ گاڑیاں جن کی قیمت 50 لاکھ سے 1 کروڑ ہے، صوبے کی تحصیلوں، ڈویژن اور ضلعوں میں کام کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر یا مختار کار کے لیے خریدی جائیں گی۔ صوبہ سندھ میں کُل 31 اضلاع اور 150 تحصیل اور ڈویژن ہیں اس حساب سے کُل لاگت کا اندازہ لگانے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت بھی نہیں ہے، اگرچہ ہمارا حساب اتنا اچھا نہیں۔ اندازاً ایک ارب روپے سے زیادہ خرچہ آئے گا۔ پچھلے ماہ کے پہلے ہفتے میں سندھ پولیس کے لیے بھی گاڑیوں کی خریداری کے لیے کروڑوں کی رقم کی منظوری دی تھی۔ اگر سندھ حکومت اور پولیس کی کارکردگی عوام دوست ہوتی تو شاید یہ اخراجات اس قدر گراں نہ لگتے۔ سندھ میں کچے کے ڈاکو اغوا، بھتا خوری اور قتل سمیت اپنی پرتشدد سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور شہریوں میں الگ ڈاکوئوں نے لوٹ مار مچائی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان (HRCP) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کچے کے ڈاکوئوں کو سالانہ ایک ارب تاوان ملتا ہے۔ سندھ کے شہری اور کچے کے ڈاکو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جو وہ اپنے بل بوتے خریدتے ہیں یا پولیس سے حاصل کرتے ہیں۔ وہ ہر طرح کے آپریشن اور کریک ڈائون کے باوجود اپنے کام میں دل جمعی سے مصروف ہیں۔ حکومت سندھ ان سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ کراچی کے گلی کوچوں میں لٹیروں کا راج ہے، موبائل سے لے کر موٹر سائیکل اور گاڑی سب ہی کی وارداتیں عروج پر ہیں۔ خواتین کے پرس بھی چھینے جارہے ہیں، بقرعید کی آمد کے ساتھ ہی اب قربانی کے جانوروں کی چوری کا دھندا بھی شروع ہوگیا ہے۔ ابھی تک یہی لکھا تھا کہ خبر ملی کہ کراچی میں ڈاکوئوں نے گولڈ میڈلسٹ میکینکل انجینئر ارتضیٰ کی چلتی ہوئی موٹر سائیکل کو روکا لوٹا اور پھر گولی مار دی۔ جاتے ہوئے موٹر سائیکل ساتھ لے گئے۔ نوجوان ارتضیٰ کی شادی ایک سال پہلے ہوئی تھی۔ کراچی کے نوجوانوں کو موبائل اور موٹر سائیکل کے لیے قتل کردینا جیسے ایک معمول کی بات ہوگئی ہے۔ ماں باپ کتنی مشکلیں اٹھا کر بچوں کو بڑا کرتے ہیں، پڑھاتے لکھاتے ہیں، کیا اس لیے کہ ڈکیت آئیں اور انہیں قتل کر ڈالیں۔ رواں سال میں 5 ماہ کے دوران ہزاروں ڈکیتیاں ہوئیں اور سیکڑوں نوجوان قتل اور زخمی کیے گئے، یہ پوری قوم کا نقصان ہے۔ سندھ حکومت اور پولیس نے بڑے بڑے وعدے کیے لیکن وہ وعدے وفا نہیں ہوئے، نہ ڈکیتوں کو لگام دی جاسکی اور نہ قاتلوں کو گرفتار کرکے سزا مل سکی۔ رمضان اور چاند رات میں شہریوں کو قتل کیا گیا۔ عید کے دن کتنے ہی گھروں میں صف ماتم بچھادیا گیا، پولیس شہریوں کو تحفظ دینے کے بجائے ڈکیتوں کو تحفظ دیتی نظر آتی ہے۔ ڈاکو بلا خوف و خطر پولیس کی موبائل کے سامنے اور آس پاس اپنی کارروائی میں مصروف ہوتے ہیں، چونکہ تھانیدار اپنی اپنی حدود میں جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی میں مگن ہوتے ہیں، ظاہر ہے جب تھانے نیلام ہوں گے تو ان کا نتیجہ کچھ اسی طرح برآمد ہوگا۔ یعنی حد ہے کہ ڈکیت اتنے بے خوف ہیں کہ وہ چلتی سڑک پر پولیس کی آگے پیچھے گلیوں میں موجودگی کے باوجود دیدہ دلیری سے لوٹ مار کرتے ہیں، پولیس کا یہ حال ہے کہ سی سی ٹی وی کی موجودگی اور ویڈیو کے ثبوت کے باوجود ڈکیتوں کو نہ گرفتار کرپاتی ہے اور نہ ہی انہیں سزا دلوا پاتی ہے۔ دوسری طرف سندھ حکومت اپنے لیے گاڑیوں کی غیر ضروری خریداری میں مصروف ہے۔ ظاہر ہے یہ غیر پیداواری اخراجات ہیں۔ آئی ایم ایف نے اگرچہ ان اخراجات پر قدغن کے لیے کہا ہے لیکن کہاں… سندھ حکومت کی لوٹ مار ڈاکوئوں سے بڑھ کر ہے۔ کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے یہاں کے شہری مسائل کی دلدل میں دبے چلے جارہے ہیں۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کے لوگوں کی آواز سنائی دے رہی ہے یا اُس نے کانوں اور آنکھوں کو بند کرکے کراچی اور سندھ کو کچے اور پکے کے ڈاکوئوں کے حوالے ہی رہنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ انتخابات میں کراچی کے لوگوں نے ایک اچھا فیصلہ کرکے ووٹ دیے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ہارے ہوئے لوگوں کو حکومت کی باگ دوڑ تھمادی۔ آخر کیوں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے؟ بہرحال یہ بات یاد رکھیں تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے اُس کے فیصلے بالآخر بھگتے ہی ہیں۔