انتخابات میں فارم 47 کے ذریعے حکومت کا قیام میں عدالت کی خاموشی ہو یا دیگر انصاف طلب معاملات عدل جو بے بدل ہوا کرتا تھا اب انصاف کا دلدل بنتا جارہا ہے اور مظلومین، متاثرین راہ عدالت کو چھوڑ کر جرگوں کی طرف بڑی تیزی رجوع کررہے ہیں اور اگر اس نظام عدل کی اصلاح نہ کی گئی تو ملک اور قوم کی سلامتی کی ہم ضمانت کھو بیٹھے گے۔ جنگ عظیم میں برطانیہ کے ہیرو چرچل نے تباہی و بربادی مملکت کے بعد پوچھا تھا کہ ہماری عدلیہ صحیح کام کررہی ہے تو پھر ہم اٹھ کھڑے ہوں اور یوں ہی ہوا، مگر اب پاکستان کی عدلیہ کا یہ عالم ہورہا ہے کہ سابق وزیرعظم محمد نواز شریف عدالت عظمیٰ کے اس وقت کے جسٹس ثاقب نثار پر نکتہ چینی ہی نہیں ہوئے ان کے فیصلے کو روند کر مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہوگئے۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ اقتدار کی کرشمہ سازی اور عدلیہ کی بے بسی ہے، پی ٹی آئی کی توپوں کا رُخ بھی حسب ضرورت عدلیہ کی طرف ہے تو کچھ فیصلے سیاسی تناظر میں دیکھے جارہے ہیں جو عدل کے پیمانے کے بجائے نظریہ ضرورت کی بدعت کی پیداوار ہیں۔
پرویز مشرف کی حکومت کو بن مانگے بھی جو مراعات اور رعایت نظام عدل نے دی وہ ایک لطیفے کے طور پر عدل کی تاریخ میں رقم ہوئی۔ اب تو صورت حال یہ ہو چلی ہے کہ جج صاحبان ایک دوسرے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ان کا بٹوارہ اندھے کو بھی نظر آرہا ہے، جج جو سُپر ہوا کرتے تھے اب ان کو ریمنڈیوس کے معاملے میں مخفی طاقت کے سامنے سپر ہوتے دیکھا گیا اور اب جج صاحبان کی یہ آواز بھی سنائی دے رہی ہے کہ دھمکایا جارہا ہے، دبائو ڈالا جارہا ہے اور ویڈیو بنائی جارہی ہیں، تو بھلا ضمیر کے قیدی کیوں ہو، ضمیر کی آواز اور عدل کی پکار بن کر کیوں مقدس کرسی چھوڑ چھاڑ کر آجاتے ہو۔ رہا ویڈیو بنانے کا معاملہ تو اس میں پریشانی کی بات کیا ہے جس کا دامن صاف ہو اُسے احتساب کا کیا ڈر؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے کہ پردہ اُٹھ گیا تو راز کھل جائے گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر انصاف کی کرسی پر براجمان ہونے کا حق آپ نہیں رکھتے، یہ محاورہ یوں ہی نہیں بن گیا ہے کہ عدل کے حصول کے لیے عمر نوحؑ، صبر ایوبؑ اور دولت ِ قارون درکار ہے، اور دیوانی مقدمہ تو دیوانہ بنا کر چھوڑتا ہے۔ حق کے حصول میں عمر بیت جاتی ہے، نسل کھپ جاتی ہے، اب تو ظالم مظلوموں کو زچ کرنے اور مطلب برآوری کے لیے عدل کا سہارا لیتے ہیں اور اس کو اپنے ڈھب پر لے آتے ہیں، عدالت کو توہین عدالت کی سزا کا اختیار اس کو لامحدود طاقت عطا کیے ہوئے معاف کرنا یہ رتبہ صرف رسالت مآب اور صحابہ کرام کا ہے، جو کلمہ گو کا ایمان ہے کیا اس شان اور رتبہ میں جج صاحبان کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے؟ اور اگر عدالت کی عزت اور جج کے احترام میں یہ کچھ ہے تو پھر عزت و احترام ڈنڈے سے نہیں فیصلوں سے حاصل ہوتا ہے۔
لاکھوں مظلومین، متاثرین، مقہورین نچلی عدالتوں سے عدالت عظمیٰ تک برسوں سے دھکے کھارہے ہیں، وکلا کی فیسوں، کرایوں اور عدالتی عملے کی رشوت کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں، عدل کی چھتری کے نیچے جو کچھ لوٹ ہورہی ہے اب یہ جملہ بھی منظر عام پر آیا ہے کہ اچھے وکیل کرنے کے بجائے جج کرلو! یہ جملہ لبوں پر آیا اور کوٹھوں چڑھا ہے۔ پہلے کہا کرتے تھے کہ جج نہیں بولتے اُن کے فیصلے بولتے ہیں۔ اب جج صاحبان بھی بول رہے ہیں تو اُن کے فیصلے بھی داستان عدل سنا رہے ہیں۔ اب رہا عدل کے میدان سے رشوت کا خاتمہ؟ رشوت کی وصولی مجسٹریٹ کی موجودگی میں موثر سمجھی جاتی ہے، آپ عدالت میں جائیں آپ کو تاریخ لینے میں بھی مٹھی گرم کرنی پڑے گی، رجسٹرار نقدی لے گا اور تاریخ دے گا، مجھے یاد ہے کہ میری تحریر پر ایک ایم پی اے نے ہتک عزت کا مقدمہ کیا۔ ایک مرتبہ جج صاحب نہ تھے رجسٹرار تاریخ دے رہے تھے میرا نمبر آیا تو انہوں نے پوچھا تاریخ نئی دوں میں نے کہا جی ہاں تو فرمایا مٹھائی دو۔ میں نے کہا کہ حضرت نہیں ہے تو ان کے منہ سے اچانک نکل گیا کہ پھر کیوں آئے ہو، میں نے کہا کہ آپ کہیں تو پھر میں نہ آئوں تو انہوں نے کہا جوابدار ہو، قبل اس کہ کے میں حامی بھرتا میرے محترم وکیل عبدالہادی کھوسو جو اب مرحوم ہوچکے اور وہ ہائی کورٹ کے جج بھی بنے انہوں نے کہا کہ صحافی ہے تو پھر رجسٹرار نے ایک لمبی ہوں کرکے تاریخ عنایت کردی۔ میں نے اینٹی کرپشن نواب شاہ کے ایک اہلکار سے یہ تذکرہ کرکے چھاپا مارنے کی بات رکھی تو انہوں نے صاحب سے معلوم کرکے بتانے کو کہا، پھر کچھ ہفتوں کے بعد ملاقات ہوئی پوچھا کہ کیا ہوا چھاپے کا، تو بتایا کہ میں نے صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا عدالت کے ملازم پر چھاپا! کیا مروائو گے؟ اب ایک جج کا جملہ مجھے یاد آتا ہے کہ جج کسی بھی گنجلک مقدمے کا فیصلہ 3 ماہ میں کرسکتا ہے مگر وکلا کی ناراضی جو طوالت مانگتی ہے کے متحمل نہیں ہوسکتے اور بار کونسل کی شکایت تبادلہ کرادیتی ہے۔
جج اور وکلا دو پہیے ہیں جو عدل کی گاڑی چالتے ہیں اب وکلا فیصلہ کن قوت ریاست سیاست میں چودھری افتخار محمد چیف جسٹس کے حق میں میدان میں اُترنے کے بعد بنتے جارہے ہیں، یوں تماشا اہل نظر دیکھتے ہیں اب وردی والے طاقتور ہیں اور وکلا بھی صاحب وردی ہیں اور عدالت میں بے وردی ہے۔ وکلا تھپڑ مار رہے ہیں، جج چیمبر کا رخ کررہے ہیں، انارکی کا ماحول ہے، صدر کو استثنیٰ ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جبکہ صاحب شریعت فرماتے ہیں کہ میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ریاست کا اہم ستون عدالت بھی لرزاں ترساں ہے، نظام عدل کی پڑتال ازحد ضروری ہے ورنہ پھر ہر اک حصول انصاف کے لیے ہتھیار اُٹھا کر معاشرے کو جہنم بنادے گا، ہائی فائی جرگہ اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ سرکار اور عوام عدل سے مایوس ہوچلے ہیں اور بند گلی میں۔ حالت یہ ہوچلی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ ہمیں غیر سیاسی قوتوں کی جانب سے سخت دبائو کا سامنا ہے ہمیں اور ہمارے خاندان کو دھمکیاں ملتی ہیں، یہ ادھورا سچ ہے، عدلیہ غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ سیاسی قوتوں کی ہلڑ بازی کا شکار رہی ہے، محمد نواز شریف کے کارکن ہوں یا مولانا فضل الرحمن کی ڈنڈا بردار فورس کی یلغار، ان سب نے عندالضرورت یا کسی قیمت پر عدالتوں پر یلغار کی اور من پسند فیصلوں کے لیے دبائو ڈالا۔ ماسوائے جماعت اسلامی کے کسی نے کوئی کسر نہ چھوڑی، بے نظیر بھٹو عدالتی فیصلوں کو چمک کا نتیجہ قرار دے کر نکتہ چین رہیں، باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ جب ججوں کے تقرر کے طریقہ کار میں تبدیلی کرکے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی سفارش پر گورنر کو جج کے تقرر کے اختیار تفویض کردیے تو عدالتوں میں جیالے جج بنادیے گئے جو پھر بعدازاں جسٹس سجاد علی شاہ نے اس ریت کا خاتمہ کیا اور چیف جسٹس کو یہ اختیار دیا گیا مگر ہوا کیا ہائی کورٹ کے ایک جج مرحوم عبدالہادی کھوسو نے بتایا کہ اپنے خاندان اور فرزندوں کو جج کی کرسی پر بٹھانے خاطر انہوں نے بھی طریقہ کار میں رعایتی ترامیم کیں اور فیض پایا۔ بہرحال یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ملک کے دو اہم ترین ادارے جو وردی والے ہیں خوب زور آزمائی میں مصروف ہیں اور عوام یہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور سب سے بڑا یہ سانحہ ہے کہ یہ دونوں ادارے جو عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن ہوا کرتے تھے یہ ساکھ برقرار ہرگز نہ رکھ سکے یہ لمحہ ٔ فکر ہے نہ عدل ہے نہ دفاع ہے طفل تسلی ہے یوں قوم نہ اِدھر کی رہی نہ اُدھر کی رہی، عدل بھی انصاف کے لیے سراپا احتجاج ہو تو پھر کہنے کو کیا بچ رہتا ہے؟ حکم خداوندی ہے۔
(مسلمانو) ایسی نفسانی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جو تمہیں انصاف کرنے سے روکتی ہوں اور اگر تم توڑ مروڑ کرو گے (یعنی غلط گواہی دو) یا پہلو بچائو گے تو اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے (سورہ نساء)
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد چونکہ نظریہ اسلام ہے اور اس مملکت خداداد کو کن خصوصیات کے جج درکار ہیں، عدالت کے جج کے بارے میں تمام آئمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ اس منصب پر فائز ہونے والا شخص سچا، دیانت دار، صاحب عفت، گناہوں سے بچنے والا، مقام تہمت اور شبہات سے دور رہنے والا، ہر حال میں اللہ کی نافرمانی سے محفوظ اور صاحب ثروت ہو۔ اسلام کی رو سے قاضی (جج) صرف وہ شخص بن سکتا ہے جو گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو اور گناہ صغیرہ پر اصرار نہ کرے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا اتفاق ہے کہ کسی فاسق کو منصب قضاء پر مقرر نہیں کرنا چاہیے، فسق کی دو قسمیں ہیں فسق عملی اور فسق اعتقادی۔ فسق عملی سے مراد شہوت اور خواہش نفس کی پیروی میں افعال شنیعہ کا ارتکاب ہے، تمام آئمہ کرام منصب قضاء کی صفات کے سلسلے میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ممکن حد تک ایسے شخص کو مقرر کیا جائے جو پرہیز گار ہو، لالچ سے پاک ہو، حرام کی طرف میلان یا رغبت نہ رکھتا ہو، ذہین ہو، اس کے مزاج میں عجلت نہ ہو، دین کے معاملے میں محتاط اور قابل اعتماد ہو۔ ایسا سنجیدہ جس کی سنجیدگی میں غضب اور کبر کی ملاوٹ نہ ہو، ایسا متواضع اور منکر مزاح جس کی تواضع میں کمزوری کا دخل نہ ہو۔ اللہ کی رضا کے مقابلے میں کسی کی رضا کی اور اس کی ناراضی کے مقابلے میں مخلوق کی ناراضی اور ملامت کی پروا نہ کرے جو کردار کا مضبوط، دانش مند، صالح ہو، امام سرخسی نے اپنی شہرہ آفاق تنصیب المبسوط میں قضا کو اشرف العبادات قرار دیتے ہوئے لکھا ہے فرائض میں ایمان باللہ کے بعد صحیح فیصلہ سے افضل کوئی شے نہیں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ناانصافی کرنے والا جہنم کا ایندھن ہے۔