اسٹیٹس کو

400

قائد اعظم کے معالج کرنل الٰہی بخش نے تحریر کیا کہ زیارت ریزیڈنسی میں قائد اعظم کے آخیری ایام میں جب بھی کوئی رہنما ان کی عیادت کے لیے تشریف لاتا تو ان کے جانے کے بعد قائد اعظم فرماتے کہ ’’میری عیادت کے لیے نہیں آتے بلکہ یہ دیکھنے آتے ہیں کہ کب میں مروں گا‘‘۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ عناصر اس انتظار میں تھے کہ جیسے ہی قائد اعظم دنیا سے پردہ کریں تو وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کریں کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ان کے مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف قائد اعظم ہی ہو سکتے ہیں۔ وہ یہ جانتے تھے کہ قائد اعظم کے بعد کی قیادت کو وہ با آسانی راستے سے ہٹا سکتے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بعد میں ایسا ہی ہوا۔

موجودہ دور میں جو حالات ہیں اور جیسا ہمارے ملک کا نظام ہے۔ اس نظام کو اس طرح بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس ملک کو ایسا بنا دیں جس میں یہ عناصر اپنے عزائم کو پورا کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اس طرح کے مقاصد رکھنے والے کامیابی سے ایسا نظام تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے کہ نواز شریف ہوں یا آصف زرداری یا عمران ومشرف سمیت ہر حکمران کو انہوں نے استعمال کیا۔ چاہے حکمران کا تعلق سویلین سے ہو یا فوج سے ہر حکمران ان کے زبردست دباؤ میں رہا کیونکہ ان کا تعلق قیام پاکستان سے پہلے ان طبقات سے تھا جنہوں نے اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر پاکستان کی زبردست مخالفت کی مگر قائد اعظم اور علامہ اقبال نے ان کو کسی طور پر بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ان کا تعلق ان جاگیر داروں، وڈیروں اور سرداروں سے تھا جنہوں نے پاکستان بنانے کی تحریک کی ہر انداز میں مخالفت کی کیونکہ پنجاب میں ان کی گرفت مضبوط تھی اس لیے انہوں نے پنجاب میں یونینسٹوں کی حکومت کی حمایت کی اور یہی طریقہ انہوں نے آنے والے دور میں ان حکمرانوں کے ساتھ اختیار کیا جو ان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے سود مند ہوں۔ قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان کو بزور طاقت راہ سے بٹا دیا گیا پھر اس کے بعد ایسے وزیر اعظم کا مذاق اُڑایا جو اپنے ذاتی کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیا کرتے تھے یعنی خواجہ ناظم الدین کی سادگی کہ وہ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے یا لیاقت علی خان کی شہادت پر ان کے پھٹے ہوئے بنیان اور موزوں کے بارے میں مذاق اُڑایا اور پھر پنڈٹ جواہر لال نہرو کے اس جملے کو نمایاں کرنا کہ ’’میں اس تیزی سے اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنا تیزی سے پاکستان میں حکومتیں بدلتی ہیں‘‘۔ آنے والے دور میں حکومتیں تو بدلتی رہیں لیکن یہ قوتیں نہیں بدلیں، یہ ہر اس حکمران کے ساتھ شامل ہو جاتی جو ان کے مقاصد میں معاون و مدد گار ثابت ہوتا۔ اس طرح یہ وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتے چلے گئے اور پاکستان اور اس کے عوام کمزور سے کمزور ہوتے چلے گئے۔ ان کو اس بات کا ذرا خیال نہیں تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا تو کیا نقصان ہو گا کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ انہوں نے اپنی نسلوں کے لیے ایسا انتظام کر لیا ہے کہ پاکستان ختم بھی ہو جائے تو ان کو کچھ فرق نہیں پڑے گا انہوں نے ایسا انتظام کر دیا کہ ان کے اثاثے ان محفوظ جگہوں میں ر ہیں کہ جب بھی ان کو ضرورت ہو وہ با آسانی اپنا معیار زندگی ان ممالک میں اس ہی انداز کا بنا سکیں جیسا وہ چاہتے تھے۔

اسی طرح جب ایوب خان کی فوجی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اس کی بھر پور سپورٹ کی کیونکہ وہ فوجی اقتدار ان کے اسٹیٹس کو کو دوام بخشنے کا باعث ہوا اور وقت نے یہی ثابت کیا کہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا اس میں ان کا اسٹیٹس کو وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتا چلا گیا اور پاکستان کمزور سے کمزور تر اب نوبت یہ ہو گئی ہے کہ یہ اپنا اسٹیٹس کو کسی صورت سے ختم کرنے کو تیار نہیں چاہے اس کے بدلے پاکستان ختم ہو جائے۔ انہوں نے اپنے نظام کی گرفت اس طرح سے قائم رکھی کہ اپنے اپنے گھرانے کا ایک ایک فرد نوکر شاہی یعنی بیورو کریسی میں دوسرا فوج میں تیرا سیاست میں یا کوئی بزنس مین، کوئی جاگیردار، کوئی وڈیرا۔ انہوں نے اپنا اسٹیٹس کو اس قدر طاقتور بنا لیا کہ کوئی بھی ان کو زک نہ پہنچا سکے اگر ان کے سامنے کوئی مخالفت حکمراں آیا تو انہوں نے اس حکمراں کو راستے سے ہٹا دیا۔ کوئی سیاست دان آیا تو وہ پھانسی پر چڑھا دیا گیا، کسی کو ملک بدر کروا دیا گیا۔

کسی کو ملک کے اندر ہی در بدر کروا دیا۔ ایوب خان کے مقابلہ کے لیے جب محترمہ فاطمہ جناح آئیں اور ان کے گرد تمام محب وطن قوتیں جمع ہو گئیں تو نہ صرف ان کو اقتدار سے محروم رکھا بلکہ بعد میں ان کو راستے سے ہٹا دیا پھر جب بھٹو اور مجیب یا ولی خان نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا تو ان کو یا تو موت کے گھاٹ اُتار دیا یا جیل کی کال کوٹھری میں۔ ان تمام قوتوں نے مل کر اقتدار ضیاء الحق کے حوالے کر وا دیا۔ جس نے اپنے ساتھ ساتھ ضیاء کے نظام کو طاقتور بنا دیا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ضیاء کے آگے کسی قوت نے مزاحمت کی جرأت تک نہ کی پھر جب سیاست دانوں کو حکومت ملی تو ان کو اس قدر کمزور رکھا گیا کہ اس اسٹیٹس کو کے بارے میں وہ کوئی معمولی سا قدم بھی اٹھا نہ سکیں۔ اسی طرح جب پرویز مشرف نے اقتدار حاصل کیا تو ان کو بھی ان ہی قوتوں کا سہارا مل گیا پھر جب اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کیا گیا اس میں بھی وہ تمام چہرے تھے جو مشرف کے ساتھ تھے۔ اس طرح ملک میں اٹھانوے فی صد لوگ جن کا جو تعلق پنجاب سے تھا یا سندھ سے بلوچستان سے تھا یا پختون خوا سے وہ غربت کی لکیر کے نیچے اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک خطرات کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے مگر یہ قوتیں اپنے اس اسٹیٹس کو کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں انہوں نے ٹھانی ہوئی ہے کہ وہ اپنی گرفت کسی بھی طرح ڈھیلی نہیں کریں گے چاہے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں جیسا کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے موقع پر ہوا۔ بجائے وہ بنگالیوں کے جائز مطالبات کو قبول کرتے انہوں نے ان پر جبر مسلط کر دیا اس طرح پاکستان دو لخت ہو گیا اب یہی قوتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئیں کہ ملک کے تین صوبوں میں فوج کے ذریعہ آپریشن کرنا پڑا مگر یہ اپنے اسٹیٹس کو کو بدلنے کو تیار نہیں۔

آج صورت حال یہ ہے کہ سیاست داں فوج کو اس کا ذمے دار سمجھ رہے ہیں اور فوج ان سیاست دانوں کو اس تباہی کا ذمے دار قرار دے رہی ہے مگر اصل دشمن سب کی آنکھوں سے اوجھل ہے اپنے مقاصد در پردہ بڑی خوش اسلوبی سے پورے کر رہے ہیں۔ نہ فوجی حکمراں ان کو بدل سکتا ہے نہ سویلین میں ان کو بدلنے کی جرأت ہے، سب جانتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ملک کتنے خطرات میں گھر گیا ہے، عوام کی حالت بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، ملک دشمن ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں مگر یہ ہیں کہ اپنا رویہ بدلنے کو تیار نہیں۔ ملک جس طرح کے خطرات میں گھرا ہوا ہے جب تک ان کے رویہ تبدیلی نہیں آتی یہ خطرات بدستور موجود رہیں گے۔ اب یا تو یہ اسٹیٹس کو قائم رہے گا یا یہ ملک۔ ہماری دعا یہ ہی ہے کہ یہ ملک قائم ودائم رہے۔