بھارت نے 1974 میں جو بھڑک ماری تھی اس کا جواب دینے کی تیاری ہم نے اُسی وقت کرلی تھی اور پروجیکٹ 786 کے عنوان سے پاکستان نے جو دھماکہ کیا یہ دھماکہ مسلم دنیا اور اہل پاکستان کی قوت کا باعث بنا۔ آج بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے بہت ہیں مگر بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ ہم نے پانچ دھماکوں کے ساتھ بھارت کا منہ بند کردیا تھا اور دو دن بعد 30 مئی کو ریگستان میں چھٹا دھماکہ کرکے اس کی آنے والی نسلوں کو پیغام دیا کہ جب کوئی پوچھے تو بتانا کہ پاکستان نے چھے دھماکے کیے تھے۔ ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے کی بڑی باتیں ہوتی ہیں یہ سارا کریڈٹ ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جاتا ہے اور اللہ کا رحم اور کرم تھا کہ اس نے پاکستان کو ان جیسے انسانوں کے ذریعے اس قابل بنایا۔ نواز شریف کابینہ میں ایک وزیر ایسے ہیں جنہیں بڑھکیں مارنے کی بہت عادت ہے، جھوٹ بولنا ان پر ختم ہے، انہوں نے ہی کابینہ میں ہوتے ہوئے اپنے بینک کھاتے سے آٹھ ہزار غیر ملکی کرنسی نکال لی تھی کہ انہیںکابینہ کے اجلاس میں معلوم ہوگیا تھا کہ دھماکوں کے بعد غیرملکی کرنسی کھاتے منجمد کر دیے جائیں گے۔ یہ رقم نکال کر انہوں نے اپنی اہلیہ کے گھر بہارہ کہو میں رکھوا دی تھی۔ رانا ثناء اللہ اسے پنڈی کا شیطان کہتے ہیں۔ بہر حال یہ بات چھوڑتے ہیں اس تاریخ کی بات کرتے جسے محترم ڈاکٹر قدیر نے رقم کیا۔
بم دھماکوں کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ چھے ایٹمی دھماکوں سے دفاع ناقابل تسخیر، بھارتی عزائم ہمیشہ کے لیے خاک میں ملا دیے گئے۔ طویل المدتی ایٹمی پروگرام کے لیے تکنیکی اہداف کا حصول قومی ہیروز نے ممکن کر دکھایا۔ ایٹمی دھماکوں کی طاقت 40کلوٹن سے زائد، کوڈ نام ’’پروجیکٹ 786‘‘ رکھا گیا تھا ایٹمی دھماکے کرنے والی ٹیم کے لیڈر قومی ہیرو ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد 31 مئی کو راقم کی درخواست پر اپنی رہائش گاہ پر سب سے پہلا انٹرویو جسارت کو دیا تھا اور یہ بات ریکارڈ پر ہے، ان کا انٹرویو جسارت اور فرائیڈے اسپیشل میں سب سے پہلے شائع ہوا تھا۔ یہ بات جسارت اور فرائیڈے اسپیشل کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد حکومت نے اس دن کا نام تجویز کرنے کے لیے پوری قوم کو دعوت دی اور ایک کمیٹی بنائی گئی۔ مجیب الرحمن شامی اور مشاہد حسین سید بھی اس کمیٹی کے رکن تھے، اس کمیٹی نے ملک بھر سے آئے ہوئے خطوط میں دی گئی تجاویز کا جائزہ لیا اور اس دن کے لیے یوم تکبیر کی تجویز تسلیم کی گئی۔
یوم تکبیر؛ یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم دن ہے جب پوری قوم اپنے وطن کے ایٹمی طاقت بننے کی 26 ویں سالگرہ مناتی ہے۔ بھارت نے جب 18مئی 1974ء کو ایٹمی طاقت حاصل کی تو پاکستانی قوم نے یہ قسم کھائی کہ وہ اپنے دشمن کے ہاتھوں پاکستان کے کسی شہر کو بھی ہیروشیما یا ناگاساکی نہیں بننے دیںگے۔ صرف ری پروسیسنگ پلانٹ حاصل کرنے کے لیے پاکستان نے ڈیڑھ سو ملین ڈالر فرانس کے صدر جین رے بمپیٹو کے اُس وعدے پر ایڈوانس دے دیے کہ وہ پاکستان کو ری پروسیسنگ پلانٹ فراہم کر دے گا۔ سات آٹھ سال کی گفت و شنید کے بعد نتیجہ یہ ہوا کہ نہ پلانٹ ملا اور نہ اُس کے لیے ایڈوانس ادا شدہ 15کروڑ ڈالر واپس ملے۔ یہ سب فرانس پر امریکی دبائو کے نتیجے میں ہوا۔ مئی 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں کو وہ موقع نصیب ہوا جس کے وہ برس ہا برس سے انتظار میں تھے۔ اُس وقت ملک میں نواز شریف وزیر اعظم تھے، حکومت نے فیصلے کے لیے ڈیفنس کمیٹی آف
دی کیبنٹ کا ہنگامی اجلاس 14مئی 1998ء کو طلب کیا جس میں ایٹمی سائنس دانوں ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر اے کیو خان کو بھی مدعو کیا گیا تھا ہنگامی میٹنگ میں ایٹمی دھماکوں کے مختلف پہلو زیر بحث آئے اور کثرت رائے سے وزیراعظم محمد نواز شریف نے یہ فیصلہ سنایا کہ انڈیا کے 5ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان 6ایٹمی دھماکے کرے گا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند پی اے ای سی کے 140ایٹمی سائنس دانوں، انجینئرز، ٹیکنیشنوں اور دوسرے رفقاء پر مشتمل ٹیم لیکر 20 مئی 1998ء کو چاغی پہنچے۔ اس ٹیم کی سیکورٹی کے لیے پاکستان آرمی کا ایک بریگیڈ فضائیہ کے 10جنگی ہیلی کاپٹرز اور پوری فضائیہ کے طیارے بھی مامور کیے گئے۔ ٹیم کے تمام ارکان کی ٹرانسپورٹیشن اور کھانے پینے کے سامان کی ذمے داری نبھانے کے لیے 50سینٹی گریڈ سے زیادہ ٹمپریچر والے چاغی کے راس کوہ پہاڑ کی وادی میں فرائض کی ادائیگی شروع کر دی۔ 28مئی 1998ء کو دوپہر 3بج کر 16منٹ پر چاغی کے پہاڑ میں پہلے سے بنائی گئی سرنگوں میں یکے بعد دیگرے 5ایٹمی دھماکے کیے جن سے راس کوہ پہاڑ کا سیاہی مائل کلر زرد ہو گیا۔ اس ٹیم نے چھٹا ایٹمی دھماکہ جو اسپیشل ایٹم بم کا تھا فاران کے ریگستان میں ایک گہرا کنواں کھود کر بیحد گہرائی میں 30مئی 1998ء کی دوپہر کوکیا ان تمام دھماکوں کی کامیابی جن کی مجموعی طاقت 40کلو ٹن سے زیادہ تھی، پاکستان کو کامیابی سے اسلامی دنیا کی پہلی اور پوری دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا…
ایک جانب اٹھائیس مئی اور دوسری جانب ملکی تازہ ترین سیاسی صورت حال، اٹھائیس مئی کو سابق صدر عارف علوی نے بیان دیا کہ پریشر ککر پھٹنے والا ہے عمر ایوب نے کہا کہ ’’عمران خان صاحب نے اس چیز کو اجاگر کیا ہے کہ 9مئی، لندن پلان کا حصہ تھا۔ جس طرح 9مئی 2023ء ایک سوچی سمجھی سازش تھی، اُسی طرح 11مارچ 1971ء بھی ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ اُس وقت جنرل یحییٰ خان شیخ مجیب الرحمن سے ملے تھے اور فیصلہ ہوا تھا کہ قومی اسمبلی کا سیشن کس روز بلایا جائے۔ جس وقت واپس پنڈی آئے، اگلے دن ملٹری آپریشن لانچ کردیا۔ اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ عمران خان اس وقت جیل میں ہیں، ان سے متعلق کچھ کہنا یا لکھنا مناسب نہیں تاہم عمر ایوب خان تو جیل میں نہیں ہیں وہ ذرا تاریخ کا مطالعہ تو کریں انہیں معلووم ہوجائے گا کہ ایوب خان نے جسٹس منیر کو یہ تجویز دے کر مشرقی پاکستان بھیجا تھا کہ وہ وہ جاکر اہم ملاقاتیں کریں اور انہیں علٰیحدہ ہوجانے کی ترغیب دیں۔ جسٹس منیر نے وہاں اسمبلی کے رکن سے ملاقات کی اور علٰیحدگی کی تجویز ان کے سامنے رکھی، ان کا جواب تھا ہم تو اکثریت ہیں، ہم کیوں الگ ہوں۔ مغربی پاکستان آبادی کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ ہے وہ علٰیحدہ ہونا چاہتا ہے تو ہوجائے۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے جسٹس منیر کی کتاب پڑھ لیجیے سب کچھ افشاء ہوجائے گا۔ اب عمران خان صاحب کو نہ جانے کون قصے کہانیاں سناتا ہے اور ان سے مرضی کے بیان لے لیتا ہے جس سے ان کی سیاسی ساکھ خراب ہورہی ہے۔ اگر کوئی آج کی سیاسی حقیقت جاننے کی کوشش کرے تو یہی جواب ملے گا کہ عمران خان کے نادان دوست ہی انہیں جیل میں رکھنے کے ہامی ہیں کہ ان کے بغیر ان کی ’’لیڈر شپ‘‘ کے مزے دوبالا ہیں۔ علی امین گنڈا پور نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قومی بجٹ سے پہلے صوبائی بجٹ پیش کرنے کا ’’انقلابی اقدام‘‘ اٹھایا ہے۔ وہ اسلام آباد پر قبضہ کرنے اور عمران خان کو جیل سے نکال لانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔
عارف علوی فرماتے ہیں ’’پریشر ککر پھٹنے والا ہے‘‘۔ یہ اضطراب، ہیجان اور جارحانہ پن بے محل نہیں حکومت کی جانب سے دوٹوک الفاظ میں بتادیا گیا ہے کہ ’’فسادیوں سے کوئی بات نہیں ہوگی عمران خان پہلے ہی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے بات چیت کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔ اب تحریک انصاف اپنی ’’تحریک ِ تحفظ ِ آئین پاکستان‘‘ کو آگے بڑھانا چاہتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیسے؟ کیا اس کے لیے بھونچال لانا ضروری ہے؟ خان صاحب سے منسوب عمر ایوب کے بیان پر غور کیا جائے تو انہوں نے پاکستان کی موجودہ صورتحال کو 1971ء کے پاکستان سے تشبیہ دی ہے۔ اُس وقت کے شیخ مجیب الرحمن کی طرح، خان صاحب کو آج کا مقبول ترین لیڈر قرار دیا ہے۔ اُس وقت کے فوجی آپریشن کو آج پی ٹی آئی کے خلاف اقدامات کے ہم پلہ کہا ہے۔ اُس وقت کی مہم جوئی کو فوج یا اداروں کے بجائے، فردِ واحد، جنرل یحییٰ خان کا انفرادی فیصلے کہتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آج بھی فیصلے فوج نہیں، فردِ واحد ہی کے ہاتھ میں ہے بین السطور مجیب الرحمن کی ’’جنگ آزادی‘‘ کو عمران خان کی ’’حقیقی جنگ آزادی‘‘ سے تشبیہ دی اور اپنے بیان سے سندیسہ دیا گیا ہے کہ پاکستان، خدانخواستہ ایک اور سقوط کا نشانہ بن سکتا ہے! خان صاحب اور عمر ایوب صرف اتنا بتا دیں کہ اگر صورتحال 1971ء ہی کی طرف جا رہی ہے تو پھر ’’مکتی باہنی‘‘ کا کردار کون ادا کرے گا؟