اداروں کے درمیان کشمکش

431

معاشرتی علوم کے مضمون میں ہم پڑھتے تھے کہ کسی جمہوری ملک کا نظام چلانے کے لیے تین ادارے ہوتے ہیں۔ ایک مقننہ، دوسرا انتظامیہ اور تیسرا ادارہ عدلیہ۔ مقننہ سے مراد وہ ادارے جہاں قانون سازی ہوتی ہے اسے پارلیمنٹ کہتے ہیں یہ دو ایوانوں پر مشتمل ہوتا ایک ایوان زیریں جسے قومی اسمبلی اور دوسرا ایوان بالا جسے سینیٹ کہتے ہیں قومی اسمبلی سے جو بل منظور ہوتا ہے پھر وہ سینیٹ میں جاتا ہے وہاں کی منظوری کے بعد وہ قانون بن جاتا ہے۔ دوسرا انتظامیہ اس میں صدر، وزیر اعظم، مرکزی کابینہ، صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گورنرز، صوبائی کابینہ اور اعلیٰ مناصب پر فائز وہ سرکاری افسران ہیں جو مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین پر عملدرآمد کرواتے ہیں انہیں اشرافیہ بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک کثیرالمفہوم لفظ ہے اس میں ملک کا کاروباری طبقہ، جاگیردار اور سرمایہ دار جو بیوروکریسی کے ساتھ مل کر قانون سازی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ تیسرا ادارہ عدلیہ ہے اس ادارے کی کثیر الجہتی ذمے داریاں ہیں اس کی اصل ذمے داری تو یہ ہے کہ وہ مظلومین کو انصاف فراہم کرے اور جلد فراہم کرے پھر اس کا یہ بھی کام ہے کہ مقننہ کی طرف سے منظور کردہ قوانین میں اگر کوئی ابہام ہوتو اس کی وضاحت کردی جائے اور سب سے اہم ذمے داری تو یہ ہے کہ بغیر کسی کے دبائو کہ میرٹ پر فیصلے کیے جائیں۔ ان تینوں اداروں کو اقتدار کے ستون بھی کہا جاتا ہے۔
زمانہ آگے بڑھا کچھ نئے معاشرتی تقاضوں کی وجہ سے ایک اور نئے ستون صحافت کا اضافہ ہوا اب یہ کہا جانے لگا کہ جمہوری نظام کو قائم رکھنے یا کسی ملک کا نظام چلانے لیے تین نہیں بلکہ چار ستون ہیں یعنی چوتھا ستون صحافت بلکہ میڈیا کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے اس میں ایک عرصے تک پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کا شمار ہوتا تھا لیکن ا ب پچھلے دس پندرہ برسوں سے سوشل میڈیا پوری قوت سے اس میں داخل ہوچکا ہے۔ اب تک تو چار ستونوں کی بازگشت سنائی دیتی تھی لیکن تمام جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتیں بھی جمہوری نظام کا حصہ ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت ہوتی ہے جن کے اپنے تنظیمی انتخابات میں مختلف سطحوں پر قیادتیں منتخب ہوکر آتی ہیں پھر یہی جمہوری جماعتیں ملک میںجمہوری قدروں کو فروغ دیتی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں ایک نئے اور چھٹے ستون فوج کا اضافہ ہوا ہے، دوسرے الفاظ میں اس کو اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔ یعنی ہمارا ملک چھے پھولوں والا گلدستہ ہے کسی بھی ملک میں بہت اچھی گورنس اسی وقت ہوسکتی ہے کہ جب ان تمام اداروں کے درمیان بہترین قسم کا تعاون cooperation اور تعامل coordination قائم ہو۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک نکتہ اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ آج ہم اپنے گھر میں راتوں کو سکون کی نیند سوتے ہیں وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہماری فوج کے سپاہی سرحدوں پر ہماری حفاظت کے لیے موجود ہیں اور فوج کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اس کی مضبوطی اور طاقت عوامی تائید اور اس کی محبت ہے۔
تمہید کچھ طویل ہوگئی ہم نے اوپر جن اداروں کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے درمیان آپس میں تعاون اور اعتماد ہی ملک میں سیاسی استحکام کی ضمانت ہے اور جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام بھی ازخود ہو جائے گا۔ پچھلے ایک دو ماہ سے ہم دیکھ رہے تھے کہ بیرونی ممالک سے بالخصوص سعودی عرب سے کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے حوالے سے قابل ذکر ہوم ورک ہوچکا ہے اس میں تیزی سے پیش رفت ہورہی تھی بس یہ تھا کہ سعودیہ کے ولی عہد کا پاکستان کا دور ہ ہوگا اور تمام ایم او یوز پر دستخط ہوجائیں گے لیکن وہ دورہ اچانک ملتوی ہوگیا کہا گیا کہ یہ دورہ اب عید کے بعد ہوگا، وہ بھی کنفرم نہیں ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ ملک میں جن قوتوں نے ایس آئی ایف سی بنائی اور اس کو بیش تر ملکوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف اعتماد اور پزیرائی ملی اور اس سے معاشی استحکام کی امیدیں روشن ہوئیں ویسی پزیرائی اس سیاسی سیٹ اپ کو نہیں مل پا رہی ہے جو ان ہی قوتوں نے بنایا جنہوں نے ایس آئی ایف سی بنائی تھی۔ شاید یہ سمجھا جارہا ہو کہ یہ ایک ٹیسٹ ٹیوب بے بی ٹائپ کی حکومت ہے اس کا کوئی بھروسا نہیں کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے اور ان خدشات کو تقویت ملک کے اہم اداروں بالخصوص عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنائو سے مل رہی ہے۔ لہٰذا معاشی مضبوطی کی جو کرنیں روشن ہوئی تھیں وہ اب مدھم پڑتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی ترقی کا سفر رکتا ہوا سے لگ رہا ہے۔ اس مثبت معاشی اشاریوں میں کچھ رکاوٹ دبئی لیک کی وجہ سے بھی ہوتی ہوئی لگ رہی ہے کہ بیرونی سرمایہ کار یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستانیوں نے تو اپنی دولت تو باہر کے ملکوں میں رکھی ہوئی ہے اور ہم سے کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کریں سرمایہ سب سے ڈرپوک شے ہے وہ وہیں جائے گا جہاں اس کی حفاظت کا معقول انتظام ہو۔
ویسے تو ہمارے ملک میں مختلف وقتوں میں اداروں کے درمیان کھینچا تانی رہتی ہے اس کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے۔ سر دست تو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان افسوسناک کشمکش نے صورتحال کو گمبھیر بنادیا ہے۔ ایک وقت تھا زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ فروری کے الیکشن سے پہلے ایسا لگتا تھا کہ یہ دونوں ادارے ایک پیج پر ہیں اور بہت تیزی سے عمران خان کو سزائیں سنائی جارہی تھیں۔ نشان کا مسئلہ جب عدالت عظمیٰ میں گیا تو اس وقت قوم کو امید تھی کہ تحریک انصاف کو بلا نشان مل جائے گا اگر ایسا ہوجاتا تو آج ملک کا سیاسی نقشہ کچھ اور ہوتا لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جن کی سربراہی میں یہ بنچ قائم ہوا تھا ہمیں یقین ہے کہ اس بنچ نے میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ دیا ہوگا۔ لیکن عوام میں اس فیصلے کو دو طرح کے تناظر میں دیکھا گیا ایک تو یہ کہ عمران خان نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس داخل کیا تھا حالانکہ بعد میں عمران خان نے اپنی اس غلطی کو تسلیم کیا تھا لیکن اس وقت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے۔ دوسرے اس نشان والے فیصلے کو اس تناظر میں بھی دیکھا گیا کہ اس وقت عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہیں اور عمران کے خلاف دھڑا دھڑ فیصلے آرہے ہیں نشان والا فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں نے اپنے اوپر مختلف وقتوں میں اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کو خط لکھا وہاں سے صورتحال کچھ تبدیل ہوئی پھر بابر ستار اور اطہر من اللہ کا سخت موقف سامنے آیا پھر ایک صحافی کے گم ہوجانے کی خبروں نے پوری صورتحال کو انتہائی تشویشناک بنادیا۔ عمران خان اپنی ضد پر قائم ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ ہی سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ان کو منہ ہی نہیں لگارہی دوسری طرف ججوں کے خطوط اور لاپتا افراد کے مسئلے پر عدلیہ نے سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی نوکری مزید پکی کرنے کی خاطر عدلیہ کے خلاف بیان دیا کہ عدلیہ میں بھی کالی بھیڑیں ہیں جس پر آج عدالت عظمیٰ کی طرف سے جواب آیا کہ وزیر اعظم کو عدلیہ میں کالی بھیڑیں نظر آتی ہیں تو ریفرنس دائر کریں۔ ایک وقت تھا کہ عمران کے خلاف تسلسل سے فیصلے آرہے تھے اب ان کے حق میں آرہے ہیں۔ اگر عمران خان، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ تینوں اپنے موقف پر سختی سے قائم رہتے ہیں تو بقول نجم سیٹھی کے ملک میں ایمرجنسی لگ سکتی ہے پھر اس کو چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے لیکن میرا خیال ہے صورتحال اس انتہا تک نہیں جائے گی گمشدہ صحافی کو عدالت میں پیش کرنے کے بعد برف کچھ پگھلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ میرے خیال سے تینوں ادارے اور شخصیات اپنے اپنے موقف سے تھوڑا تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر کسی نکتہ اتفاق تک پہنچ جائیں گے۔