بھارتیوں کے مظالم کاشکار

480

مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں اقلیتیں بالخصوص مسلمان انتہا پسند بھارتیوں کے مظالم کا شکار ہیں۔ بھارت میں ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی میں لگ بھگ 14فی صد مسلمان آباد ہیں جو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر قابض اکھنڈ بھارت کی حامی انتہا پسند مودی سرکار مسلمان مخالف پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر 77 سال سے بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے جبکہ بھارت پر گزشتہ 10سال سے قابض انتہا پسند مودی حکومت نے کشمیری مسلمانوں پر ہر طرح کے مظالم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے انتہا پسند مودی مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی نئی بھارتی سازش منظر عام پر آگئی۔ حال ہی میں ہندوستان کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ ’’پتھراؤ کرنے والوں کے خاندان کے افراد اور عسکریت پسندوں کے رشتہ داروں کو سرکاری نوکری نہیں ملے گی‘‘۔ جنہیں بھارتی حکومت عسکریت پسند کہہ رہی ہے وہ در حقیقت ناجائز بھارتی قبضے کے خلاف آزادی کی کوششیں کرنے والے کشمیری مسلمان ہیں۔ ’’مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989 سے اپریل 2024 تک تقریباً ایک لاکھ کے قریب معصوم و نہتے کشمیریوں کو شہید جبکہ ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے‘‘۔ ایک لاکھ سے زائد بچوں کو یتیم جبکہ بائیس ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔
اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ’’کشمیری مسلمانوں کی کل آبادی کا 40 فی صد سرکاری ملازمتوں کے لیے نااہل قرار دیا جارہا ہے‘‘۔ امیت شاہ کے بیان کا تنقیدی جائزہ لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ’’مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا یہ بیان محض سیاسی نہیں ہے‘‘۔
پچھلے پانچ سال میں مقبوضہ کشمیر میں مختلف گزیٹڈ اور نان گزیٹڈ آسامیوں کے لیے منتخب کیے گئے 30 فی صد سے زیادہ کشمیری مسلمانوں کو سرکاری نوکریاں حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکڑوں مسلمانوں کی برطرفی کے احکامات اس کے علاوہ ہیں۔ انتہا پسند بی جے پی کا یہ نیا مذموم منصوبہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی ایک اجتماعی سزا ہے جو تقریباً نصف کشمیریوں کو دی جا رہی ہے جبکہ کشمیریوں کو زندگی جینے کا حق اور منصفانہ موقع ملنا چاہیے۔ بھارت اب ایسی ریاست بن چکا ہے جہاں مسلمانوں کو پسماندگی کی جانب دھکیلاجارہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھارتی حکومت کے اس غیر منصفانہ اقدام کیخلاف فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ انتخابات میں مودی کی جیت پر ہندوتوا نظریے کی مزید توثیق ہوگی اور بھارت کے زیرِ تسلط مسلمانوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہو جائیں گی۔ بھارت میں عام انتخابات کے دوران مودی اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے مسلمان مخالف بیانیے کا استعمال زور و شور سے کررہا ہے۔ بھارتی انتخابات کے پانچ مرحلے مکمل ہوچکے ہیں جن کے نتائج مودی کی توقعات کے عین برعکس آرہے ہیں۔ مودی نے لوک سبھا میں 3/4 نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو اب سچ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ مودی نے ہار کے خوف سے ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف اپنے نفرت انگیز بیانیے کا سہارا لیا اور اپنی تقریروں کو محض مسلمانوں کیخلاف زہر اگلنے تک محدود کردیا۔ مسلمانوں کو اپنی نفرت کا نشانہ بناتے ہوئے جہاں ایک طرف مودی نے چند انتہا پسند ہندوؤں کی حمایت حاصل کی وہیں۔ دوسری جانب ملک میں انتشار پھیلانے پر عالمی سطح پر کڑی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مودی کی توقعات کے برعکس مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے پر بھارتی عوام کا جھکاؤ بی جے پی سے کانگریس کی جانب بڑھنے لگا جس کے پیش نظر مودی نے عوام کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا۔ مودی نے 21 اپریل کو راجستھان میں اپنی ریلی کے دوران دعویٰ کیا کہ اگر کانگریس حکومت میں آگئی تو بھارت کی ساری دولت اور ذخائر مسلمانوں میں بانٹ دے گی۔ مودی نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ان کے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں اس لیے کانگریس بھارتی وسائل انہیں دے دے گی۔ بی جے پی کا بیانیہ ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرکے بھارت میں اپنی اکثریت بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق مسلمان خواتین میں زرخیزی کی شرح میں 2.05 فی صد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ ہندو خواتین میں 1.36 فی صد کمی ہوئی۔ مودی نے 23 اپریل کو اپنی ایک تقریر کے دوران کہا کہ کانگریس بھارتی خواتین کے منگل سوتر چھین کر مسلمانوں میں بانٹ دے گی۔ مودی کے اس دعوے کا مطلب تھا کہ کانگریس کی حکومت میں مسلمانوں کو اضافی وسائل، سہولت اور فوائد میسر ہوں گے۔ حقیقتاً صحت سے لے کر تعلیم تک مسلمانوں کو بھارت میں سب سے کم سہولتیں میسر ہیں۔ بھارت کے سرکار ریکارڈ کے مطابق مسلمانوں کے محض 4.6 فی صد بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ آل انڈیا ڈیبٹ اینڈ انویسٹمنٹ سروے کے مطابق بھارت میں مسلمان سب سے زیادہ غریب طبقہ ہے۔ مودی نے 12 مئی کو ویسٹ بنگال میں اپنی تقریر میں دعویٰ کیا کہ کانگریس نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے مختص نوکریاں بھی مسلمانوں میں بانٹ دے گی۔ حقیقتاً بھارتی قانون کے مطابق سرکاری نوکریاں مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذات کی بنیاد پر دی جاتی ہیں اور مسلمانوں کو تو ’’دیگر کلاس‘‘ کے ذمرے میں رکھا گیا ہے۔ مودی کی جانب سے مسلمانوں کیخلاف ’’لو جہاد‘‘ کا بیانیہ بھی مسلسل استعمال کیا جاتا ہے اور اس منفی پروپیگنڈے کے پھیلاؤ کے لیے خصوصی فلمیں بھی ریلیز کی جاتی ہیں۔ مودی سرکار لو جہاد بیانیے میں دعویٰ کرتی ہے کہ مسلمان مرد ہندو خواتین کو بیوقوف بنا کر ان سے شادیاں کرتے اور مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بالی وڈ فلم کیرالہ اسٹوری بھی لو جہاد پر مبنی تھی جس میں دکھایا گیا کہ 32 ہزار سے زائد ہندو خواتین مذہب تبدیل کرکے ISIS میں شمولیت اختیار کرچکی ہیں۔ بعد ازاں فلم بینوں نے خود اعتراف کیا کہ بتایا جانے والا نمبر سراسر غلط تھا اور محض تین خواتین نے مذہب تبدیل کیا ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی ریسرچ میں بھی ثابت کیا گیا کہ لو جہاد تھیوری کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور یہ بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ نے بھارتی انتخابات کے دوران مودی کے چار جھوٹے اور منفی پروپیگنڈوں کا راز فاش کردیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی اپنی نفرت انگیز اور انتشار پسند کارروائیوں سے باز آئے گا یا ایسے ہی خطے کے امن کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے داؤ پر لگاتا رہے گا؟