اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ – اَسْباب و آغاز

943

آخری حصہ
اقتصادی ترقی: اقتصادی میدان میں ترقی بھی نَشاۃِ ثانِیَہ کے اسباب میں شامل ہے۔ خلیجی ممالک میں تیل کی دریافت اور اس سے حاصل ہونے والی دولت نے اسلامی دنیا کو اقتصادی لحاظ سے مضبوط کیا۔ اس دولت سے تعلیمی اور فنّی میدانوں میں سرمایہ کاری ممکن ہوئی، جس سے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی ترقی ہوئی۔
ثقافتی احیاء: اسلامی ثقافت اور تہذیب کا احیاء بھی نَشاۃِ ثانِیَہ میں ایک اہم عنصر کردار ادا کرتا ہے۔ اسلامی فنون، ادب اور تاریخی ورثے کی بحالی نے مسلمانوں کو اپنی شناخت اور فخر کو دوبارہ حاصل کرنے میں مدد دی۔
جدید مواصلاتی ذرائع: انٹرنیٹ اور جدید مواصلاتی ذرائع نے مسلمانوں کو عالمی سطح پر آپس میں جوڑ دیا ہے۔ اس کے ذریعے علمی، فکری اور ثقافتی تبادلہ ممکن ہوا، جس سے ایک نئی علمی اور ثقافتی بیداری نے جنم لیا۔
اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کا آغاز: اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کا آغاز ایک عظیم تحریک تھی جس نے علمی، فکری، سیاسی، اقتصادی، اور ثقافتی میدانوں میں بے پناہ ترقی کی۔ اس دور نے نہ صرف اسلامی دنیا کو متاثر کیا بلکہ عالمی تاریخ پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔ آج بھی اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کی مثالیں ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں اور ہمیں علمی و فکری ترقی کے لیے ماضی سے سبق لینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اسلام کی نَشاۃِ ثانِیَہ کا آغاز مختلف مقامات اور ادوار میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اخوان المسلمون کی تحریک: حسن البناء شہیدؒ کی قیادت میں مصر میں 1928ء میں شروع ہونے والی اخوان المسلمون تحریک نے اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کی ابتداء کی۔ اس تحریک نے اسلامی تعلیمات کے فروغ اور سیاسی بیداری کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
جماعت اسلامی: سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ (1903ء تا 1979ء) کی قیادت میں 1941ء میں قائم ہونے والی جماعت ِ اسلامی بھی نَشاۃِ ثانِیَہ کا ایک اہم محرک ہے۔ اس نے اسلامی نظریات اور سیاسی شعور کو اجاگر کرنے میں مدد دی۔
ایران کا اسلامی انقلاب: 1979ء میں ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ہونے والا اسلامی انقلاب بھی نَشاۃِ ثانِیَہ کا ایک بڑا سنگ میل ہے۔ اس انقلاب نے اسلامی حکومت کے قیام کی مثال قائم کی۔
تعلیمی اداروں کا قیام: مختلف اسلامی ممالک میں جدید تعلیمی اداروں کا قیام، جیسے کہ سعودی عرب میں اسلامی یونیورسٹی، نے علمی اور فکری نَشاۃِ ثانِیَہ میں اہم کردار ادا کیا۔ جدید تعلیمی اداروں کا قیام، سائنسی اور تکنیکی علوم کی ترقی اور ماضی کے علمی ورثے کی بحالی نے مسلمانوں کو نئی قوت عطاء کی۔ ان اداروں نے مسلمانوں کو جدید علوم سے روشناس کرایا اور انہیں عالمی ترقی کی دوڑ میں شامل کیا۔
اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کے نتیجے میں اسلامی سوسائٹی کی تشکیل ہوئی، جس میں عدل و انصاف، علم و فن اور علمی ترقی کی باتیں شامل تھیں۔ اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ میں علم، طب، فلک، ریاضیات، فن، ادب اور فلسفہ کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ اس دوران، عرب سائنسدان، فلسفی اور فنکاروں نے انقلابی کام کیا اور ایک نئی روشنی کا راہ نما بنا۔ اسلام دشمن طاقتوں کی عداوت اور مسلسل یلغار کے نتیجے میں ملّت ِ اسلامیہ ہدفِ ملامت بنتی رہی ہیں۔ تاریخ میں بارہا ایسے مواقع آئے کہ شدّت سے محسوس ہونے لگا کہ اب یہ اُمَّت زندگی کے افق سے غائب ہو جائے گی، مگر ہر بار اللہ نے اس سفینہ کو منجدھار سے نکالا اور تازہ دم ہو کر تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نمودار ہوئی۔
پچھلی دو تین صدیوں کے حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس اُمَّت کے جسم سے مسلسل خون ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے، کبھی وہ بے حد کمزور، نڈھال اور شکست و ریخت سے دو چار ہوتی نظر آتی ہے مگر تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، جب ہم پچھلی دو صدیوں کے زوال و انحطاط، اور اپنی ذہنی و جسمانی غلامی کی تاریخ کا آج کی صورتحال سے موازنہ کرتے ہیں تو اُمَّت مسلمہ کی نَشاۃِ ثانِیَہ کے روشن امکانات نظر آنے لگتے ہیں۔
اسلام کی نَشاۃِ ثانِیَہ ایک جامع عمل ہے جس میں مختلف اسباب و عوامل نے کردار ادا کیا ہے۔ تعلیمی بیداری، سیاسی تحریکیں، اقتصادی ترقی، ثقافتی احیاء اور جدید مواصلاتی ذرائع نے اس نَشاۃِ ثانِیَہ کو ممکن بنایا۔ اسلامی دنیا آج اس نَشاۃِ ثانِیَہ کے ذریعے اپنے ماضی کے شاندار ورثے کو دوبارہ زندہ کرنے اور مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ یہ عمل نہ صرف مسلمانوں کی داخلی ترقی کا باعث بن رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلام کی تصویر کو بہتر بنا رہا ہے۔ نَشاۃِ ثانِیَہ کا یہ عمل ایک جاری عمل ہے جو مسلسل ترقی اور بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ؎
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے کہ وہ شیر پھر ہشیار ہوگا

علّامہ مُحَمّد اقبالؒ کی شاعری نے اُمَّت مسلمہ کی نَشاۃِ ثانِیَہ کی نوید دی اور ماضی کی پژمردگی سے نکال کر امید و خودی کا پیغام دیا۔ اقبالؒ کی شاعری میں مسلم قوم کا تصور دراصل ایک اُمَّت کا تصور ہے۔ جغرافیائی حدود و قیود سے نکل کر عالمی سطح پر جدوجہد کرنے کا پیغام ہی علّامہ اقبالؒ کی بنیادی فکر ہے۔
مسلمانوں کی تمام خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود مسلم نشأۃ ثانیہ کے سنجیدہ امکانات بھی انگڑائیاں لے رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بلند و بالا عزائم کے ساتھ اپنی سعی و جہد کو جاری و ساری رکھنا ہے۔ مسلم نشأۃ ثانیہ جو آج بظاہر ایک خواب نظر آرہا ہے، ہماری صحیح سمت کی اجتماعی کوششیں اس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرسکتی ہیں۔؎
اب تیرا دور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زر و سیم