وزیراعظم بے بس؟

433

گزشتہ ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوا، جس کے بعد ایک بار پھر حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان تضاد سامنے آگیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے پٹرول کی قیمت میں 15.40 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 7.90 روپے کمی کی منظوری دی تھی، لیکن وزارتِ خزانہ نے صرف 4.74 روپے فی لیٹر پٹرول اور 3.84 روپے فی لیٹر ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے، جب کہ اس موقع پر وزیر ِاعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی عوام دوست پالیسیوں کے نتیجے میں مہنگائی میں واضح کمی واقع ہوئی ہے اور معاشی استحکام آیا ہے۔ لیکن اب وزیراعظم خود پریشان ہیں کہ یہ کیا ہوا ہے! اور انہوں نے حیرت کے اظہار کے بعد واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اس واقعے نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں کہ کیا وزیراعظم واقعی ملک کے معاملات پر قابو رکھتے ہیں، یا بیوروکریسی ہی اصل حکمران ہے؟ یہ پہلی بار نہیں ہے جب بیوروکریسی اور منتخب حکومت کے درمیان تضاد سامنے آیا ہے۔ ماضی میں بھی کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں بیوروکریسی نے اپنے فیصلے نافذ کیے ہیں، چاہے وہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوروکریسی آئی ایم ایف کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہے اور وہ حکومت پر مالیاتی پالیسیوں کے حوالے سے دبائو ڈال سکتی ہے۔ اس صورت حال کا حل تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ منتخب حکومت کو واقعی ملک پر حکمرانی کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ بیوروکریسی کو زیادہ جواب دہ بنایا جائے۔ اس کے لیے بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران کے تقرر کا عمل میرٹ پر مبنی ہونا چاہیے اور انہیں حکومت کے سامنے جواب دہ ہونا چاہیے۔ وزیراعظم اور بیوروکریسی کے درمیان حالیہ تضاد نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کردیا ہے کہ پاکستان میں طاقت کا توازن کہیں اور ہے۔