اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ – اَسْباب و آغاز

633

اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ (حیاتِ نو) ایک ایسا موضوع ہے جو اسلامی دنیا کی تاریخ اور موجودہ حالات کے تناظر میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کے اسباب اور آغاز پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کا پس منظر:- اسلامی دنیا نے اپنی تاریخ میں کئی صدیوں تک عروج و زوال کا سامنا کیا ہے۔ اسلامی تہذیب کی پہلی نَشاۃ (عروج) نبی اکرمؐ کی بعثت اور خلفائے راشدینؓ کے دور میں ہوئی، جس کے بعد اموی، عباسی اور عثمانی خلافت کے ادوار میں اسلامی تہذیب نے مختلف علمی، ثقافتی اور اقتصادی شعبوں میں عروج پایا۔ تاہم ان ادوار کے بعد، مختلف داخلی خلفشار، بیرونی حملے، نوآبادیاتی دور کے اثرات اور بیرونی اسباب کی بناء پر اسلامی دنیا میں زوال آیا۔

ابتدائی عروج: عہد ِ نبوی اور خلافت ِ راشدہؓ: اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ (Revival of Islam) کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ابتدائی عروج کو دیکھنا ہوگا۔ نبی اکرمؐ کی بعثت کے بعد عرب کے معاشرے میں ایک عظیم انقلاب آیا۔ اس دور میں قرآن و سنّت کی روشنی میں ایک نیا معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی نظام قائم ہوا۔ خلفائے راشدینؓ کے دور میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا اور اسلامی ریاست کی حدود عرب سے باہر پھیل گئیں۔ اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کی ابتداء خلافت ِ راشدہ کے دور سے ہوتی ہے، جب خلفائے راشدینؓ نے اسلامی حکومت کی بنیادیں مضبوط کیں۔ انہوں نے اسلامی معاشرتی اور قانونی نظام کو مستحکم کیا۔ ان کے دور میں اسلامی فتوحات نے وسیع علاقے فتح کیے اور اسلام کی روشنی کو دنیا کے مختلف حصّوں میں پھیلایا۔

اموی اور عباسی دور؛ علمی و ثقافتی ترقی: خلافت ِ راشدہ کے بعد اموی اور عباسی خلافتوں کا دور آیا۔ اموی خلافت (661ء-750ء) میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور اسپین تک اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ عباسی خلافت (750ء-1258ء) کا دور اسلامی علوم و فنون کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ بغداد میں بیت الحکمت (House of Wisdom) کا قیام، جہاں دنیا بھر سے علماء، فلسفی اور سائنسدان اکٹھے ہوئے۔ علمی ترجموں کا دور اور مختلف علوم میں ترقی عباسی دور کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ اس دور میں فلسفہ، طبّ، ریاضی اور دیگر سائنسی علوم میں مسلمان علماء نے اہم کام کیا۔ اس زمانے میں عباسی اور اموی خلفاء سائنس اور دیگر علوم کی مکمل طور پر سرپرستی کرتے تھے، فنونِ لطیفہ کے ماہرین، حکماء و فلاسفہ کی خلفاء کے درباروں میں جو قدر و منزلت ہوا کرتی تھی اس کا تصور بھی آج مشکل ہے۔ الکندی، فارابی، ابن ِ رشد، ابن ِ الہیثم، جابر بن حیان، بوعلی سینا، عمر خیّام اور نجانے کتنے ہی ستارے آسمانِ علم پر نور کی طرح چمکنے لگے۔

زوال؛ اندرو نی خلفشار اور بیرونی حملے: اسلامی دنیا کا زوال عباسی خلافت کے آخر میں شروع ہوا۔ داخلی طور پر خلفشار، فرقہ وارانہ تنازعات اور مختلف ریاستوں کی خود مختاری کی کوششوں نے اسلامی اتحاد کو کمزور کیا۔ بیرونی طور پر صلیبی جنگوں اور منگولوں کے حملوں نے اسلامی دنیا کو شدید نقصان پہنچایا۔ 1258ء میں ہلاکو خان کے بغداد پر حملے اور عباسی خلافت کے خاتمے نے اسلامی د نیا کو زوال کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ عثمانی خلافت زوال کے بعد عثمانی خلافت (1299ء-1922ء) کا قیام ہوا، جو کچھ عرصے تک اسلامی دنیا کی سیاسی اور ثقافتی وحدت کا مرکز رہی۔ عثمانی خلافت نے اسلامی فنون، تعمیرات، اور علوم کو پروان چڑھایا۔ مگر 19 ویں اور 20 ویں صدی میں عثمانی خلافت بھی اندرونی خلفشار اور یورپی استعمار کے باعث کمزور ہوتی گئی۔ بالآخر 1924ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا۔ نوآبادیاتی دور انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپی طاقتوں نے بیش تر اسلامی ممالک پر قبضہ کر لیا۔ اس نوآبادیاتی دور میں اسلامی دنیا میں مزید تقسیم اور پسماندگی آئی۔ مسلمانوں کی تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی حالت زوال پذیر ہوتی گئی۔

ادب اور فنون: شعر و شاعری اور فن ِ تعمیر: اس دور میں ادب اور فنون میں بھی عظیم ترقی ہوئی۔ شعر و شاعری میں فردوسی، سعدی اور حافظ جیسے بڑے نام سامنے آئے۔ فن ِ تعمیر میں اسلامی دنیانے بہترین مساجد، مدارس اور دیگر عمارات تعمیر کیں، جن میں قرطبہ کی مسجد، جامعہ الازہر اور تاج محل شامل ہیں۔

سیاسی و اقتصادی استحکام: سیاسی طور پر اسلامی دنیا نے ایک مضبوط نظام قائم کیا جو عدل و انصاف پر مبنی تھا۔ اقتصادی میدان میں تجارت اور زراعت نے ترقی کی اور سونے، چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تجارت کو فروغ ملا۔ اس دور میں مسلمان تاجر دنیا کے مختلف حصّوں تک پہنچے اور بین الاقوامی تجارت کو فروغ دیا۔

تصوف اور دینی احیاء: اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کے دوران تصوف اور روحانیت میں بھی اہم تبدیلیاں آئیں۔ صوفیاء کرام نے اسلامی تعلیمات کو روحانی بنیادوں پر عام کیا اور لوگوں کو اللہ کے قریب کرنے کی کوشش کی۔ رومیؒ، غزالیؒ، اور ابن ِ عربی جیسے صوفیاء نے اسلامی تصوف میں اہم کردار ادا کیا۔

اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کے اسباب: اِسْلامی نَشاۃِ ثانِیَہ کے کئی اسباب ہیں جنہیں ہم مختلف زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

تعلیمی بیداری: اسلامی دنیا میں تعلیمی بیداری کا فروغ نَشاۃِ ثانِیَہ کا ایک اہم سبب ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں مسلمانوں نے جدید تعلیم کی اہمیت کو دوبارہ زندہ کیا۔ ہندوستان میں خلافت تحریک، سر سیّد احمد خان کی تحریک علی گڑھ، دارالعلوم دیوبند، اور دیگر تعلیمی اداروں کا قیام تعلیمی بیداری کی مثالیں ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ سے بہت قبل شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بھی سائنسی سرگرمیوں کو اسلام کا لازمی جزو قرار دیا تھا اور تحقیق و جستجو کو اہمیت دی تھی۔

سیاسی تحریکیں: نوآبادیاتی دور کے خاتمے اور مختلف اسلامی تحریکوں کا آغاز بھی نَشاۃِ ثانِیَہ میں معاون ثابت ہوا۔ مصر میں اخوان المسلمون، برصغیر میں جماعت ِ اسلامی اور دیگر سیاسی تنظیموں نے مسلمانوں کو سیاسی اور سماجی میدان میں بیدار کیا اور اپنے حقوق اور اسلامی شناخت کے بارے میں آگاہ کیا۔