قیامت کی گرمی، شمسی توانائی اور پانی

434

گرمی ہو یا سردی، یہ دونوں موسم اس وقت اچھے لگتے ہیں جب ان میں نرمی اور دلربائی ہو اور انسانی جسم ان کا لطف محسوس کرے لیکن جب یہ موسم اپنے عروج پر پہنچتے ہیں اور اپنا جوبن دکھاتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے اور آدمی تمام تر جدید سہولتوں کے باوجود موسم کی قہرمانی کے آگے بے بس ہوجاتا ہے بلکہ سچ پوچھیے تو جدید سہولتوں اور آسائشوں نے اسے بہت کمزور بنادیا ہے اور آج کا آدمی موسم کا ایک تھپیڑا برداشت کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں رکھتا۔ ان دنوں گرمی کا موسم ہے، قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے، سورج آگ برسا رہا ہے، بعض علاقوں میں درجہ حرارت پچاس درجے سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے۔ ایسے میں محکمہ موسمیات نے اطلاع دی ہے کہ گرمی کی موجودہ لہر 31 مئی تک برقرار رہے گی۔ اس کے بعد موسم نسبتاً بہتر ہوجائے گا۔ گرمی ہر سال پڑتی ہے اور ہر سال یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شدت پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ شاید زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اور ایک وقت آئے گا جب وہ اپنی حدت سے پگھل کر رہ جائے گی اور وہی قیامت کا دن ہوگا۔ قرآن میں قیامت کا کوئی حتمی وقت نہیں بتایا گیا لیکن بار بار خبردار کیا گیا ہے کہ قیامت کا وقت قریب آن لگا ہے، وقت جوں جوں گزر رہا ہے قیامت قریب آتی جارہی ہے۔ اہل بصیرت کہتے ہیں کہ ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں اس میں قیامت کی ساری نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔ یہ نشانیاں وہ ہیں جن کی خبر صادقؑ نے چودہ سو سال پہلے ہمیں دے دی تھی۔ ہم ان نشانیوں کا مشاہدہ کررہے ہیں اور قیامت کے انتظار میں ہیں۔

بہرکیف قیامت جب آئے گی سو آئے گی اور اس کا آنا اٹل ہے۔ ہم فی الحال قیامت خیز گرمی بھگت رہے ہیں۔ اس سے بچائو کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ بجلی کسی تعطل کے بغیر دستیاب ہو اور بجلی کے پنکھے اور ریفریجریٹر چلتے رہیں۔ یہ عام لوگوں کا معاملہ ہے انہیں معلوم ہے کہ بجلی کی گرانی انہیں اس عیاشی کی اجازت نہیں دیتی، لیکن یہ عیاشی نہیں اس قیامت کی گرمی میں زندہ رہنے کے لیے کم سے کم دستیاب سہولت ہے جس سے استفادہ کیے بغیر چارہ نہیں۔ البتہ بجلی کی یہ سہولت بھی بلاتعطل دستیاب نہیں ہے، ہر چار گھنٹے کے بعد دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول بنتی جارہی ہے۔ دیہی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ اس سے بھی زیادہ ہے، یوں بھی دیہات کے لوگ بجلی کے زیادہ عادی نہیں، وہ کھلی ہوا میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف شہروں کا ہے جہاں لوڈشیڈنگ قیامت پر قیامت ڈھا رہی ہے۔ لوڈشیڈنگ کی اصل وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بجلی کی کھپت زیادہ ہے اور پیداوار کم ہے لیکن کوئی پوچھے کہ یہ آئی پی پیز کس مرض کی دوا ہیں جن کے بجلی پیدا کرنے والے یونٹ بند پڑے ہیں لیکن وہ اربوں میں نفع کما رہی ہیں۔ آئی پی پیز ایک جونک کی طرح اس قوم کو چمٹی ہوئی ہیں اور اس کا خون چوس رہی ہیں۔ نہایت مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ آئی پی پیز کا تحفہ ہیں لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ ان سے جان چھڑا سکے کیونکہ یہ حکمران اشرافیہ کے سرمایہ کار ہیں اور انہوں نے پاکستان کو اپنے ظالمانہ سمجھوتوں میں جکڑ رکھا ہے۔ آئی پی پیز کی مہنگی بجلی سے نجات کا واحد راستہ شمسی توانائی کا استعمال ہے لوگوں میں سولر پینل کا رواج بڑھ رہا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس پر راضی نہیں ہے کیونکہ آئی ایم ایف عوام کو بجلی کے معاملے میں کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایک باخبر صحافی کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی کے استعمال کی حوصلہ شکنی میں آئی پی پیز مافیا کا بھی عمل دخل ہے۔ یہ مافیا نہیں چاہتا کہ عوام کو شمسی توانائی کے ذریعے سستی نہایت سستی بجلی میسر آئے اور آئی پی پیز کی اہمیت کم ہو جس نے پاکستان کو اربوں کھربوں کے گردشی قرضوں میں جکڑ رکھا ہے۔ چنانچہ سولر پینل پر ٹیکس لگانے کی باتیں ہورہی ہیں جن لوگوں نے سولر پینل پر سرمایہ کاری کی ہے اور اپنی گھریلو ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کررہے ہیں واپڈا پہلے یہ اضافی بجلی اپنی سپلائی لائن میں شامل کرکے اس کی ادائیگی کرتا تھا لیکن اب وہ ایسا کرنے سے انکار کررہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں بھی آئی پی پیز مافیا کا ہاتھ ہے۔ یہ مخالفت اب اس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ کوئی بھی سیاسی حکومت اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ قدرت نے تو ہمیں توانائی کے وافر ذرائع فراہم کررکھے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ ہم ان ذرائع کو استعمال کرنے کے بجائے خودکشی پر تُلے ہوئے ہیں۔

قیامت کی گرمی میں پانی کی قلت بھی ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ یوں تو پاکستان کو ہر موسم میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے لیکن موسم گرما میں یہ مسئلہ زیادہ شدت اختیار کرجاتا ہے۔ حکومت کی واٹر سپلائی اسکیمیں چند بڑے شہروں تک محدود ہیں۔ باقی تمام چھوٹے شہروں، قصاب اور دیہات کو پانی فراہم کرنے کی ذمے داری سے حکومت نے ہاتھ اٹھا رکھا ہے، لوگ خود ہی کنویں کھدواتے، زمینوں میں بور کرواتے اور ضرورت کا پانی حاصل کرتے ہیں۔ اسلام آباد جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی لوگ گھروں میں بور کروارہے ہیں کہ واٹر سپلائی اسکیم کے تحت انہیں ضرورت کا پانی میسر نہیں آتا۔ یہ پانی صرف حکمران اشرافیہ کے لیے خاص ہے جسے چوبیس گھنٹے بلاتعطل پانی کی فراہمی جاری رہتی ہے۔ پانی کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ ملک میں کتنے ہی پسماندہ علاقے ایسے ہیں جہاں ایک ہی جوہڑ سے سب جاندار یعنی انسان اور جانور اکٹھے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ قدرت تو اہل زمین کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتی وہ انہیں بارشوں اور سیلابوں کی صورت میں بے حساب پانی فراہم کرتی ہے اس پانی کو ڈیم کی صورت میں ذخیرہ کرنا اور اسے ضرورت کے وقت آب پاشی اور آب نوشی کے لیے استعمال کرنا آدمی کی اپنی ذمے داری ہے۔ یہ کام پوری دنیا میں حکومتیں کرتی ہیں لیکن پاکستان میں حکمرانوں کو لوٹ مار ہی سے فرصت نہیں ہے اور بارش کا پانی ندی نالوں کی صورت میں بہہ کر سمندر میں جا گرتا ہے اور پاکستانی عوام پانی کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق موجودہ صورت حال میں پاکستان کے اندر کم سے کم تین سو ڈیمز ہونے چاہئیں جبکہ ہمارے پاس گنتی کے چند ڈیمز ہیں جو ہماری بے بسی کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ہمارے پاس بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے شمسی توانائی بھی بے حساب موجود ہے جبکہ پانی کی قلت ڈیمز بنانے سے دور ہوسکتی ہے لیکن ہم نے تہیہ کررکھا ہے کہ خودکشی کرلیں گے البتہ عزت و وقار سے زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں اپنائیں گے۔