قربانی کے فضائل ومسائل (حصہ اول)

486

قربانی کے ایام آرہے ہیں، اس مناسبت سے قربانی کے فضائل اور ضروری مسائل پیشِ خدمت ہیں:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’پس اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے‘‘، (الکوثر: 2) ’’اللہ تعالیٰ کے حضور (تمہاری قربانیوں کا) گوشت اور خون نہیں پہنچتا، بلکہ (اس فعل ِ قربانی سے حاصل ہونے والا) تمہارا تقویٰ اُس کی بارگاہ میں پہنچتا ہے‘‘۔ (الحج:27) احادیث ِ مبارکہ میں ہے: رسول اللہؐ نے فرمایا: قربانی کے دن آدمی کا کوئی بھی (نیک) عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قربانی کا یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ (اللہ تعالیٰ کے حضور) آئے گا اور (قربانی کے جانور کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کے درجے کو پالیتا ہے، پس (اے مومنو!) تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘، (سنن ترمذی) ’’جس شخص کو مالی استطاعت حاصل ہو اور وہ (ایامِ قربانی میں) قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے‘‘، (سنن ابن ماجہ) ’’سیدنا زید بن ارقم بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ کے صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! یہ قربانیاں کیا ہیں، آپؐ نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہیں (کیونکہ قریش آلِ ابراہیم میں سے تھے)، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! ہمارے لیے اس میں کیا ہے، آپؐ نے فرمایا: (قربانی کے جانور کے) ہربال کے بدلے میں نیکی ہے، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! اُون (والے جانور وں) کی بابت کیا اجر ہے،آپؐ نے فرمایا: اون کے ہر رُویں کے بدلے میں نیکی ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)

٭ قربانی ہر صاحب نصاب بالغ مرد وعورت پر واجب ہے، زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے کم ازکم نصاب پر پورا قمری سال یا سال کا اکثر حصہ گزرنا شرط ہے، جبکہ قربانی اور فطرے کے وجوب کے لیے بالترتیب عیدالاضحی اور عیدالفطر کی صبح صادق کو محض کم ازکم نصاب کا مالک ہونا کافی ہے، سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ قربانی کے جانوروں کی عمریں حسب ِ ذیل ہیں: بکرا، بکری، دنبہ، بھیڑ ایک سال مکمل ہوجائے اور دوسرے سال میں داخل ہوجائیں ٭ بیل، گائے، بھینس، بھینسے کی عمر دوسال پوری ہوجائے اور تیسرے سال میں داخل ہوجائیں ٭ اونٹ، اونٹنی کی عمر پانچ سال پوری ہوجائے اور چھٹے سال میں داخل ہوجائیں، یہاں قمری سال مراد ہے، البتہ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنے فربہ ہوں کہ دیکھنے میں ایک سال کے نظر آئیں توان کی قربانی جائز ہے۔

٭ اگر صاحب ِ نصاب مال دار شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ گم ہوگیا یا قربانی سے پہلے مرگیا تو اس پر لازم ہے کہ دوسرا جانور خرید کر قربانی دے یا قربانی کے جانور میں حصہ ڈالے۔ اگر قربانی سے پہلے گم شدہ جانور مل جائے تو مالدار شخص کو اختیار ہے کہ جس جانور کی چاہے قربانی دے، دونوں کی قربانی لازمی نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ جس جانور کی قیمت زیادہ ہو، اُس کی قربانی کرے۔

٭ اگر نادار شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ قربانی سے پہلے گم ہوگیا یا مر گیا، تواس پر دوسرے جانور کی قربانی لازم نہیں ہے۔ اگر اس نے دوسرا جانور خرید لیا اور پہلاگم شدہ جانور بھی بعد میں مل گیا، تو اس پر دونوں کی قربانی لازم ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو اُس پر قربانی واجب نہیں تھی، اُس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدکر خود اپنے اوپر واجب کی، اسی طرح دوسرے جانور کا حکم ہے۔

٭ قربانی کے جانوروں کی عمر پورا ہونے کی ظاہری علامت دو دانت کا ہونا ہے، لہٰذا جس جانور کے دو دانت پورے نہیں ہوئے، اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ البتہ جانور گھر کا پلا ہوا ہے یا کسی قابل اعتماد شخص کے پاس ہے اور اس کی مطلوبہ عمر پوری ہوگئی ہے، تو اس کی قربانی شرعاً جائز ہے، خواہ سامنے کے دو دانت ابھی پورے نہ ہوئے ہوں، عام کاروباری لوگوں پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔

٭ قربانی کا جانور تمام ظاہری عیوب سے سلامت ہونا چاہیے، اس سلسلہ میں فقہائے کرام نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ ہر وہ عیب جو جانور کی کسی منفعت یا جمال کو بالکل ضائع کردے، اس کی وجہ سے قربانی جائز نہیں ہے اور جو عیب اس سے کم تر درجے کا ہو، اس کی قربانی ہوجاتی ہے۔

٭ جو جانور اندھا کانا یا لنگڑا ہو، بہت بیمار اور لاغر، جس کا کوئی کان، دم یا چکتی تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، پیدائشی کان نہ ہوں، ناک کٹی ہو، دانت نہ ہوں، بکری کا ایک تھن یا گائے بھینس کے دو تھن خشک ہوں، ان سب جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’ھَتْمَاء یعنی وہ جانور جس کے دانت نہ ہوں، اگر وہ چَر سکتا ہے اور چارا کھا سکتا ہے تو اُس کی قربانی جائز ہے‘‘۔ جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا سینگ اوپر سے ٹوٹا ہوا ہے، کان، چکتی یادُم ایک تہائی یا اس سے کم کٹے ہوئے ہیں تو ایسے جانوروں کی قربانی جائز ہے ٭ جانور میں حسن پیدا کرنے کے لیے اُس کے سینگ سر کے اوپر سے رگڑ دیتے ہیں یا ایسا کیمیکل استعمال کرتے ہیں کہ سینگ کی نشوونما رُک جاتی ہے، لیکن اس کا اثر دماغ پر مرتّب نہیں ہوتا اور سینگ کی جَڑ بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے، تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے، ٭ صاحب نصاب نے عیب دار جانور خریدا یا خریدتے وقت بے عیب تھا، بعد میں عیب پیدا ہوگیا تو ان دونوں صورتوں میں اس کے لیے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیںہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا بے عیب جانور خریدے اور قربانی کرے اور اگر خدانخوستہ ایسا شخص صاحب نصاب نہیں ہے، تو اُس کے لیے اُسی جانور کی قربانی جائز ہے۔

٭ خصی جانور کی قربانی آنڈو کے بہ نسبت افضل ہے، کیو نکہ اس کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے، اگر گائے کے ساتویں حصے کی قیمت بکری سے زیادہ ہو تو وہ افضل ہے اور اگر قیمتیں برابر ہوں تو بکری کی قربانی افضل ہے، کیو نکہ بکری کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ ٭ بکرا بکری، بھیڑ دنبے کی قربانی صرف ایک فرد کی طرف سے ہوسکتی ہے، اونٹ گائے وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ سب کی نیت عبادت کی ہو۔ سات سے کم (مثلاً: چھے، پانچ، چار، تین، دو) افراد بھی ایک گائے کی قربانی میں برابرکے حصے دار ہوسکتے ہیں حتیٰ کہ ایک آدمی بھی پوری گائے کی قربانی کرسکتا ہے، سات حصے داروں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔

٭ سات افراد نے مل کر قربانی کا جانور خریدا، پھر قربانی سے پہلے ایک حصے دار کا انتقال ہوگیا اگر اُس کے ورثاء باہمی رضامندی سے یا کوئی ایک وارث یاچند ورثاء اپنے حصہ وراثت میں سے اجازت دے دیں توا ستحساناً اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ اپنی واجب قربانی ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ توفیق دے تو رسول اکرمؐ کے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرنا افضل ہے اور کرنے والے کو نہ صرف پورا جرو ثواب ملے گا، بلکہ نبی کریمؐ کی نسبت سے اس کی قبولیت کا بھی یقین ہے۔

٭ شریعت کی رو سے ہرعاقل وبالغ مسلمان مرد وعورت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا جواب دہ ہے، لہٰذا گر کسی مشترکہ خاندان میں ایک سے زیادہ بالغ افراد صاحب نصاب ہیں تو سب پر فرداً فرداً قربانی واجب ہے، محض ایک کی قربانی سب کے لیے کافی نہیں ہوگی، بلکہ تعین کے بغیر ادا ہی نہیں ہوگی۔ ٭ گائے کی قربانی میں عقیقہ کا حصہ بھی ڈال سکتے ہیں، بہتر ہے کہ لڑکی کے لیے ایک اور لڑکے کے لیے دوحصے ہوں، اگر دو کی استطاعت نہ ہو تو لڑکے کے لیے ایک حصہ بھی ڈالاجاسکتا ہے، نیز عقیقے کا گوشت والدین اور قریبی رشتے دار بھی کھا سکتے ہیں۔ قربانی کے جانور نے ذبح سے پہلے بچہ دے دیا یا ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے زندہ بچہ نکلا تو دونوں صورتوں میں یا تو اسے بھی قربان کردیں یازندہ صدقہ کردیں یا فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ کردیں، اگر بچہ مردہ نکلے تو اسے پھینک دیں، قربانی ہر صورت میں صحیح ہے، البتہ قصداً حاملہ بکری، گائے، بھینس یا اونٹنی قربانی کی نیت سے نہ خریدنا بہتر ہے۔

٭ ذبح کرتے وقت قربانی کا جانور اچھلا کودا اور اس میں کوئی عیب پیدا ہوگیا یاذبح ہوتے ہوئے اٹھ کر بھاگا اور وہ عیب دار ہوگیا تو اسے اسی حالت میں ذبح کردیں، قربانی ہوجائے گی، ٭ افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں: ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے، ایک حصہ اقارب واحباب کے لیے اور ایک حصہ فقراء اور ناداروں پر صرف کیا جائے، سارا گوشت رضائے الٰہی کے لیے مستحقین کو دے دینا عزیمت اور اعلیٰ درجے کی نیکی ہے اور ضرورت مند ہونے کی صورت میں کل یا اکثر گوشت ذاتی استعمال میں لانے کی بھی رخصت واجازت ہے، لیکن یہ روح ِ قربانی کے منافی ہے۔ (جاری ہے)