جب ٹائیٹنک ڈوب رہا تھا تو دو ارب پتی انگریزوں کی اعلیٰ ظرفی پر ایک دوست نے قصیدہ خوانی کی کہ انہوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر دو بچوں کو لائف بوٹ دے دی اور کسی نے اپنی نوکرانی کو اپنی جگہ لائف بوٹ پر چڑھا دیا۔ واضح رہے کہ ان کی یہ سب مہربانیاں، عدالتوں سے انصاف کی فراہمی، آزاد عدلیہ کا ڈھونگ یہ سب غیر مسلموں کے لیے ہوتا ہے۔ جہاں اسلام کا ذکر آجائے وہ ایک ملین مسلمانوں پر ایک کتے کی زندگی بچانہ زیادہ افضل سمجھتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب دوسری جنگ عظیم میں لندن کی اینٹ سے اینٹ بجائی جارہی تھی تو کچھ دانشور چرچل کے پاس پہنچے اور کہا یہ کیا ہورہا ہے آپ نے کیا اقدامات کیے اس پر چرچل نے ایک سوال کیا کہ کیا تمہارے ملک میں عدالتیں آزاد ہیں سب ہکا بکا رہ گئے، کہ یہ کیسا سوال ہے وفد نے کہا عدالت کا اس جنگ عظیم سے کیا تعلق، لندن جل رہا ہے کچھ کریں چرچل نے اپنا سوال دہرایا تو سب نے کہا ہاں عدالتیں آزاد ہیں، اس پر چرچل نے کہا جو پھر کچھ نہیں ہوتا۔
آج وہی گورا ہے، وہی برطانیہ ہے، آج پچاس ہزار غزہ کے مسلمان اسی گورے کی پشت پناہی پر شہید کردیے گئے مگر ملکہ، وزیر اعظم برطانیہ کسی کے ماتھے پر شکن نہیں۔ اتنی بے شرمی کہ مغرب کی تہذیب ہی ننگی ہوگئی مگر کسی کو کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ ان کا مقصد بھرپور انداز میں پورا ہورہا ہے، مسلمان مر رہا ہے بس یہی تو ان کو چاہیے۔ ادھر امریکا میں انصاف کا دہرا معیار دیکھیں کسی نا کردہ گناہ کی پاداش میں عافیہ صدیقی کو کیسے اور کس قانون کے تحت چھیاسی سال کی سزا سنادی جبکہ امریکی اخبار میں اس خاکسار نے ایک قاتل کا انٹرویو خود پڑھا کہ وہ قتل صرف اس لیے کرتا ہے کہ اسے مزید پانچ سال کی سزا ہوجائے اور وہ مفت میں کھانے پینے کھیلنے کودنے اور زندگی کی تمام آسائشیں مفت میں حاصل کرے گا۔ نہ نوکری کا چکر نہ کھانا پکانے کی حجت، وجہ صرف یہ کہ وہ امریکن ہے بھلے کالا ہے۔
بھائی گورے کی ذہنیت کو سمجھنے کی کوشش کریں، جنہوں نے بہتر سال پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ پاکستان کو نہ ترقی کرنے دینا ہے نہ اپنے پاؤں پہ کھڑے ہونے دینا ہے نہ امت مسلمہ کی قیادت کرنے دینی ہے۔ کیا یہ سب باتیں اور پالیسیاں اخلاقیات کے معیار پر پوری اترتی ہیں کیا شرافت، بردباری، انصاف کے تقاضوں پر پوری اترتی ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کام کرنے میں اخلاقیات، بردباری، شرافت، انصاف، تہذیب و تمدن، شائستگی کی کوئی حیثیت نہیں۔