کیا روس یوکرین کی جنگ جیت چکا ہے؟

567

یوکرین کی جنگ کے دو بڑے بیرونی کردار امریکا اور یورپ اپنے انتخابی بکھیڑوں میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ اوپر سے غزہ کی جنگ کے بے وقت آغاز نے دنیا کا سارا منظر ہی بدل ڈالا اور دنیا کی ساری توجہ مشرق وسطیٰ کی جانب مبذول ہو کر رہ گئی۔ یوکرین کی جنگ کے آغاز سے کھونوں کھدروں میں پڑا متروک اسلحہ فروخت کر کے دنیا میں جن خواتین وحضرات کو کمانا تھا کمالیا اب تعمیر نو کے نام پر ایک نئی گنگا جمنا میں ڈبکیاں مارنے کا مرحلہ ہے جو ابھی کوسوں دور ہے۔ کچھ یہی معاملہ غزہ اور رفح کا ہے جنہیں دنیا کی خاموش تائید کے ساتھ ملبے کے ڈھیر اور انسانوں کے مقتل بنا دیا گیا اور اب وہی دنیا تعمیر نو کے نام پر اس تخریب کو تعمیر کا رخ دینے کود پڑنے والی ہے مگر اس دوران وہ خون کس ترازو میں تُلے گا جو اس کھیل میں سیلاب ِ تند بہہ گیا۔ 2022 میں روس نے یوکرین میں اپنی فوجیں داخل کیں تو مغرب پہلے سے دام بچھائے ہوئے تھا۔ ناٹو کی فورسز پہلے ہی یوکرین کے پہلو میں اس تاک میں بیٹھی تھیں کہ کب روس کی فوج یوکرین میں داخل ہو اور وہ اسے روس کا ویت نام یا افغانستان بنا ڈالیں۔ دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد اب یوکرین کے صدر ولادیمیر زلنسکی نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کوئی ملک جنگ میں روس کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں زلنسکی نے روس کی فوجی برتری کا اعتراف کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری روس کے خلاف مل کر کام کرے کیونکہ کوئی بھی ملک تنہا روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ زلنسکی کا کہنا تھا کہ جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو ہم تنہا تھے مگر تنازعے کے بعد مغربی ممالک کی حمایت کی وجہ سے ہم آج تک ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسے مضبوط اتحاد کی ضرورت ہے جو روس کو دھمکائے بغیر دنیا کو یہ بتائے کہ وہ ان کے خلاف کتنی مضبوط اور موثر ہے۔ ایسے میں روس کو اپنی بقا اور سلامتی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

ولادیمیر زلنسکی کی طرف سے روس کو دھمکائے بغیر پیغام دینے کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین کی قیادت اب اعصابی طور پر تھک چکی ہے اور وہ روس پر مزید فوجی دبائو ڈال کر اسے مزید مشتعل کرنے سے گریزاں ہے۔ مغرب نے روس پر جس قدر فوجی اور نفسیاتی دبائو ڈالنا تھا شاید یہ عمل مکمل ہو چکا ہے اب یہاں سے روس کی ریڈ لائن شروع ہو رہی ہے۔ جس کو توڑنے کے جواب میں روس کوئی بھی تباہ کن قدم اُٹھا سکتا ہے۔ یہ وہ خوف ہے جو یورپ میں محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ یورپ میں صدر پیوٹن کا جس طرح امیج بنا دیا گیا اس میں ان سے کچھ بھی بعید نہیں سمجھا جاتا۔ پیوٹن کی انتخابات میں شکست مغرب کی آخری امید تھی جو ان کی کامیابی کی صورت میں پوری نہ ہو سکی اور پیوٹن تازہ دم ہو کر میدان میں آدھمکے ہیں اور انہوں نے منتخب ہونے کے چند ہی ماہ بعد اپنے پہلے دورے کے لیے عوامی جمہوریہ چین کا انتخاب کرکے اپنے سب سے بڑے اسٹرٹیجک شراکت دار کی نشاندہی کی۔ یہ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ مغرب کا دردِ سر بنا ہوا اور اب وہ اس دیوار سے مزید ٹکریں مارنے سے گریز کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ یوکرینی صدر اب روس پر چڑھائی کے بجائے روسی عوام سے رابطہ کرنے کے حامی ہیں تاکہ انہیں باور کرایا جا سکے کہ یوکرین کی جنگ ان کے لیے فائدہ مند نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوکرین اب اس جنگ میں اعصابی طور پر ہار کے قریب ہے۔

ولادیمر زلنسکی کے بعد جرمن چانسلر ایلاف شولز نے بھی بہت دلچسپ بیان دیا ہے کہ ان کا ملک روس کے خلاف مغربی ساختہ اسلحہ کے استعمال کے حق میں نہیں کیونکہ ہمارا مقصد عالمی جنگ نہیں۔ جرمن چانسلر کا یہ بیان بھی زلنسکی کے اعتراف شکست جیسا ہے۔ جرمنی ان ملکوں میں شامل ہے جو یوکرین اور روس کی جنگ سے معاشی طور پر بری طرح متاثر ہوا ہے۔ مغرب نے روس کے خلاف متروک اور زنگ آلود اسلحہ جس حد تک استعمال کرنا تھا کر لیا اب وہ اس معاملے میں ہاتھ کھڑے کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہ وہی یورپ ہے جو دھوم دھڑکے سے افغانستان میں امریکا کی جنگ لڑنے کے لیے ٹینکوں کے کارواں لیے داخل ہوا تھا مگر جب وقت کا پانسا پلٹا اور سب سے پہلے یورپی ملکوں نے امریکا اور ناٹو کو تنہا چھوڑ کر افغانستان سے فرار کی راہیں تلاش کرنا شروع کی تھیں۔ اب تاریخ یوکرین میں خود کو دہراسکتی ہے۔

ولادیمر پوٹن کی جنگی حکمت عملی نے مغرب کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے رائٹر کے مطابق روس اپنی جیلوں سے قیدیوں کو نکال کر جنگ میں شریک کر رہا ہے۔ جو قیدی یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اسے رہائی ملتی ہے، روس دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جہاں قیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ گزشتہ برس جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کا نکال دیا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے گزشتہ برس لکھا تھا کہ 2023 میں روسی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد دولاکھ چھیاسٹھ ہزار رہ گئی ہے حالانکہ ایک سال پہلے یہی تعداد چار لاکھ بیس ہزار تھی۔ اسی رپورٹ کے مطابق پچاس ہزار قیدیوں کو روسی ملیشیا ویگنار میں شامل کیا گیا تھا۔ اسی طرح روسی وزرات دفاع بھی براہ راست اسٹارم زیڈ کے لیے قیدیوں کی بھرتی کرنے میں مصروف ہے۔ یہاں تک کہ سائبیریا میں تو قیدیوں کی تعداد میں کمی کے باعث جیلیں ہی ختم کی جا رہی ہیں اور اس وقت روس میں قیدیوں کی مجموعی تعداد ڈھائی لاکھ رہ گئی ہے۔ اس حکمت عملی کے دوران ہی انتخابی کامیابی نے پیوٹن کے اعتماد کو بڑھا دیا ہے اور ساتھ ہی اسے چین جیسا تزویراتی شراکت دار بھی میسر آگیا ہے۔ ایسے میں یوکرین کی موجودہ انتظامیہ اور یورپی ملکوں کے اعصاب چٹخنا کوئی انہونی نہیں بلکہ دیوار پر لکھی ہوئی ایسی عبارت تھی جسے حسب روایت پڑھنے میں وہ خاصی تاخیر کر چکے ہیں۔