نواز شریف، قائد اعظم اور پاکستان کی نظریاتی جہت

528

آخر نواز شریف کو شخصیت پرست پارٹیوں کے رہنماؤں کی بلا مقابلہ منتخب ہونے کی روایت کے عین مطابق 28 مئی کو مسلم لیگ(ن) کا بلا مقابلہ صدر منتخب کر لیا گیا۔ اس انتخاب سے تقریباً دس دن قبل مسلم لیگ(ن) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں احسن اقبال جنرل سیکرٹری اور شہباز شریف قائم مقام صدر مسلم لیگ(ن) نے نواز شریف کو جن القابات اور لفظی ستائشوں سے نوازا اور خود نواز شریف نے اپنے جن کارناموں کا ذکر کیا اور وہاں موجود سینٹرل ورکنگ کمیٹی کی اکثریت نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے جس طرح تالیاں پیٹیں، ان شخصیت پرست اور محدود سوچ رکھنے والوں نے یہ بتا دیا کہ چمکتی ہوئی چیز کو سونا کیوں کہتے ہیں۔
سینٹرل ورکنگ کمیٹی میں نواز شریف کی گفتگو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ان کی سوچ صرف مادہ پرستی ہے، ان کی سوچ صرف حکومت ہے، ان کی سوچ صرف اپنا احسان مند رکھنا اور پھر اس کے عوض تعریفی کلمات جس سے انہیں اور ان کی انا کو تسکین ملے۔ موٹروے کو اپنا کارنامہ بتا کر نہ جانے وہ کیوں پاکستانیوں سے اپنے حق میں تحسین کے کلمات ادا کروانا چاہ رہے ہیں۔ اس طرح کے کام دنیا میں نہ انوکھے ہیں اور نہ ہی نئے۔ مغرب ہو یا مشرق، ان ممالک نے اپنے شہریوں کو تمام بنیادی سہولتوں اور ضروریات سے نوازا ہوا ہے، سعودی عرب ہی کی مثال لے لیں، تپتے ہوئے صحرا کو کس طرح ترقی یافتہ اور محفوظ شہروں میں بدل دیا، گرمی اور موسم کی شدت سے تحفظ کے لیے شہریوں کو بلا تعطل نظام دیا اور عوام کی زندگی ہر طرح سے آسان کردی اسی طرح مغربی ممالک میں کس طرح ناقابل برداشت، رگوں میں خون جما دینے والی سردی سے تحفظ کے لیے خاص و عام کو وسائل، بنیادی و ضروری سہولتوں کی فراہمی کی بھی حکومت ذمے دار، یہ تو بطور مثال صرف چند باتیں ہیں، دیگر چیزوں کے حوالے سے تو ایک طویل فہرست مرتب ہو جائے گی۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی حکمرانوں کے احوال ملاحظہ فرمائیں، ٹھنڈے سرکاری دفاتر اور رہائش گاہیں، آرام دہ سفر، بھلا انہیں اس موسم گرما میں ملک عزیز میں پسینہ سے شرابور لوگوں کے حال سے کیا اور کیوں سروکار؟ گھنٹوں کے حساب سے لوڈ شیڈنگ اور اوپر سے بجلی اور گیس کے بھاری اور ناقابل برداشت بل، بنیادی ضروریات زندگی کے لیے ترساں عوام بھلا کس کے در پر جاکر فریاد کریں۔ نواز شریف کو سینٹرل ورکنگ کمیٹی اجلاس میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ تو یاد رہ گیا لیکن مسلم لیگ(ن) کے پے در پے اور جاری دور حکمرانی میں لوگوں کی زندگیوں کو جہنم بنانے کے اسباب یاد نہیں آئے۔
نواز شریف ابھی تک اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا سکے ہیں، اگر ماضی ہی کی بات کرنی ہے تو پھر اسی ماضی کے حوالے سے ان کی وہ ویڈیو آج بھی گردش میں ہے جس میں انہوں نے بھارت اور واجپائی کی محبت میں سرشار ہو کر کہا تھا کہ ’’ہمارا ایک ہی کلچر تھا، ایک ہی معاشرے کے ہم لوگ تھے، بیچ میں صرف بارڈر آگیا ہے۔ آلو گوشت آپ بھی کھاتے اور ہم بھی کھاتے ہیں، واجپائی صاحب نے اس بات کا گلہ کیا کہ کارگل کا مس ایڈونچر کر کے میری پیٹھ پر چھرا گھونپا گیا، میں نے کہا واجپائی صاحب ٹھیک کہتے ہیں ان کی پیٹھ میں چھرا واقعتا گھونپا گیا اگر میں ان کی جگہ ہوتا میں بھی یہی بات کرتا، لیکن میں اب یہ گلہ کس سے کروں پاکستان میں‘‘۔ یہ نواز شریف کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں اور اسی ویڈیو کے مطابق یہ ان کے دل سے نکلنے والی باتیں ہیں۔ نواز شریف کے ان دلی الفاظ نے 1947 میں اس بارڈر لائن کے لیے قربانی دینے والوں کی روحوں کو کتنا تڑپایا ہوگا۔ کارگل کے معرکہ میں شہید ہونے والے کیپٹن کرنل شیر خان شہید اور دیگر شہدا کی روحیں کتنا تڑپ اٹھی ہوں گی۔ واجپائی کی آمد پر شریف برادران نے لاہور میں جماعت اسلامی کے بزرگوں اور جوانوں کو جس ظلم اور ستم کا نشانہ بنایا تھا اس سے واجپائی تو ضرور خوش ہوا ہوگا لیکن تادم قیامت ’’شریفوں کے ظلم کی داستان‘‘ ایک ایسا کلنک کا ٹیکہ ہے جو ان شریفوں کا محشر تک پیچھا کرے گا، اس ظلم و درندگی سمیت جمعہ کی چھٹی ختم کرنے کا اقدام اور کئی ایسے کارنامے (ن) لیگ کے ورکرز کنونشن میں نواز شریف کے اس گلے کا جواب ہیں کہ لوگ ان کو نکالنے پر کیوں نہیں نکلے۔
پاکستان اس لیے نہیں حاصل کیا گیا تھا کہ جغرافیائی طور سے ہندوستان کے نقشہ پر ایک لائن کھینچ دی جائے جو بقول نواز شریف صرف ایک بارڈر ہے بلکہ اس کے پیچھے لاکھوں مرد و خواتین کی جانی مالی، عزتوں اور عصمتوں کی قربانی اور عزیمت کی ایک لازوال داستان اور جدوجہد ہے۔ قائد اعظم نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 8 مارچ 1944ء کو فرمایا تھا ’’مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ ٔ توحید ہے، نہ وطن نہ نسل، ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا‘‘۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ ٔ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ اسلامیہ کالج، پشاور، 13جنوری 1948 کے خطاب میں قائد اعظم نے کہا ’’اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے، ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔ ایک انگریز دانشور کے سوال ’’جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں تو کیا مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟ کے جواب میں قائد اعظم نے فرمایا: ’’آپ یہ حقیقت کبھی نظر انداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں، یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام حیات دیتا ہے۔ میں زندگی کے معنوں میں سوچ رہا ہوں، میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں، میں اپنی تاریخ، اپنے ہیروز، اپنے آرٹ، اپنے فن تعمیر، اپنی موسیقی، اپنے قوانین، اپنے نظام عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطہ ٔ نظر نہ صرف ہندوئوں سے انقلابی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگی میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام، ہمارا لباس، ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہے، ہماری اقتصادی زندگی، ہمارے تعلیمی تصورات، جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطہ ٔ نظر۔ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں، ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں‘‘۔ (انگریز دانشور ہیرولی نکلسن کی کتاب Verdict on India مطبوعہ 1944ء) قائد اعظم کے ان فرامین کو دیکھیے اور نواز شریف کی ویڈیو میں کہی باتوں کا تجزیہ کریں گے تو صرف نواز شریف کی مادہ پرست شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے جس کا قائد اعظم کے خیالات اور پاکستان کی نظریاتی جہت سے دور دور تک نہ کوئی نسبت ہے اور نہ واسطہ۔ پاکستان تو اس لیے بنا تھا اور آج بھی ان سیاسی جماعتوں کے لیے مشعل راہ ہے جو پاکستان کو نبی کریمؐ کی تعلیمات کے مطابق ریاست مدینہ میں ڈھالنا چاہتے ہیں لیکن یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ ریاست مدینہ طرز کی ریاست کی خواہش کا اظہار تو کریں لیکن جب قدرت آپ کو آزمانے کے لیے اپنی نیابت اور حق حکمرانی عطا کرے تو آپ سیدھے آئی ایم ایف کی گود میں جا گریں۔ اگر پاکستان میں حکمران پارٹیاں تبدیل ہوں، تو ہوں، لیکن آئی ایم ایف کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اس کا کاروبار چلتا رہے، سود ادا کرنے کے لیے اس کے سودی قرضہ پروگرام کو آپ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے تحفظ کی ضمانت دیں اور اقتدار میں ہوتے ہوئے ان ہی معاہدوں کی تجدید۔ دیکھا جائے تو بظاہر آج مایوسی ہے عوام اور ملک دونوں کے حالات سازگار نہیں لیکن نبی کریمؐ کا اُسوہ بتا رہا ہے کہ کامیابی اسی مایوس صورتحال میں اولوالعزمی کے ساتھ کھڑا رہنے، مقابلہ کرنے، مزاحمت اور قربانیوں سے حاصل ہونے میں ہے، لیکن نہ جانے کیوں دین اور نظام شریعت کے حوالے سے ایک مخصوص طبقہ ذہنی بانجھ پن کا شکار ہو جاتا ہے۔