یہ زندگی کی خاص حقیقت ہے کہ وہ لوگ کبھی آپ کو نہیں بھولتے جو مشکل وقت آپ کا ساتھ دیتے ہیں یا پھر مشکل وقت میں آپ سے نگاہ پھیر لیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا، وقت آگے کی سمت رواں دواں رہتا ہے، وقت کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں تا کہ آپ دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ پریشانیاں تو ہر شخص پر آتی ہیں وہ اس لیے کہ آپ نے زندگی سے کیا کچھ سیکھا؟ کیا حاصل کیا؟ کیا کھویا؟ آپ کی خوشی کے لمحات میں بھی کچھ لوگوں کی شناخت ہوتی ہے، کون لوگ حقیقی طور پر خوش ہیں اور کون مصنوعی خوشی ظاہر کررہے ہیں جب ایسا شعور آپ کو نصیب ہوجائے تو اسے اپنی خوش نصیبی تصور کریں۔ لیکن ساتھ ہی ایک بات سامنے آتی ہے کہ زندگی کا المیہ یہ نہیں کہ زندگی مختصر ہے، المیہ دراصل یہ ہے زندگی کیا ہے؟ یہ بات بہت دیر میں سمجھ میں آتی ہے بس ایک بات یاد رکھیں آپ کی زندگی میں حالات کیسے بھی ہوں اللہ کا شکر ضرور ادا کرتے ہیں۔ اس کا سب سے پہلا اور بہترین صلہ یہ ملتا ہے کہ اللہ آپ کو انسانوں کو سمجھنے کا شعور اور زندگی کو برتنے کا سلیقہ عطا کرتا ہے یقین کرلیں یہی آپ کی زندگی کی بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ ہی حقیقت بھی ہے، میں نے بہت لوگ دیکھے ہیں جو اللہ کا شکر ہر حال میں ادا کرتے رہے اور اللہ ان پر اپنے انعامات کی بھرمار کرتا رہا۔ اُن میں میرے 2 استاد ایسے شامل ہیں جو لوگوں میں شعور بیدار کرتے ہیں، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ جن میں ممتاز ادیب محمد محسن جن کی دونوں کتابوں ’’آٹھواں آسمان‘‘ اور ’’تیشہ کوہ کن‘‘ میں آپ کو تربیت اور شعور نظر آئے گا۔ دوسرے میر حفاظت حسین رضوی ہیں جو ایک باعمل سماجی رہنما ہیں جن سے بچپن میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
جس دن میرا کالم قبر کے لیے جگہ، ذمے دار کون؟ اُن کی نظر سے گزرا تو ان کا میسج واٹس ایپ پر آیا۔ انہوں نے کہا کہ تمہارا وادی ابن آدم کا خواب اچھا ہے مگر اس کے لیے عملی اقدام ضروری ہے۔ میدان میں اُترو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں ہر کام پیسے سے نہیں اپنی سروسز سے ہوتا ہے۔ میں الحمدللہ 1000 سے زیادہ میتوں کو شیعہ سنی کی تفریق کے بغیر غسل دے چکا ہوں اور کم و بیش اتنے ہی اپنے ہاتھوں سے سپرد خاک کرچکا۔ میری میت بس بھی اس طرح کی تفریق کے بغیر ڈیوٹی انجام دے رہی ہے، کسی بڑے ٹرسٹ کی آس روک دیں میں اپنی ذات میں مکمل ٹرسٹ ہوں اور کچھ خدمت گزار دوست میرے ساتھ موجود ہیں۔ اگر واقعی انسانیت کے لیے کچھ کام کرنا ہے تو سب آسرے چھوڑ کر اللہ کے آسرے پر اکتفا کرو اور اپنی سطح پر آغاز کردو، اس ناچیز کو ہر قدم پر ساتھ پائو گے۔ یہ الفاظ اور تحریر پڑھ کر میرا حوصلہ اور بلند ہوا کہ ایک باعمل ہستی نے میری تحریر کو پڑھنے کے بعد وادی ابن آدم قبرستان کے آئیڈیا پر لبیک تو کہا ان شاء اللہ اب میں بھرپور طریقے سے اس قبرستان کی تعمیر کے حوالے سے میدان میں اُتروں گا۔ دُعا قارئین کریں گے اور مدد اللہ کی حاصل ہوگی۔ اب بات کرتے ہیں شعور کی بہت عرصے کے بعد کسی ایم پی اے نے سندھ اسمبلی میں ایسے اشو پر آواز بلند کی جس میں ہزاروں متاثرین موجود ہیں۔ یہ ایم پی اے ہیں فاروق صاحب جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے آپ نے کرپٹ کوآپریٹو سوسائٹیز پر سندھ اسمبلی میں قرار داد پیش کی۔
رکن الدین گروپ آف کمپنی نام تھا بھروسے کا انہوں نے گرین ویلی کے نام سے ایک اعلیٰ معیاری رہائشی اسکیم پیش کی مگر آج تک کسی ایک کو قبضہ نہیں ملا۔ متاثرین اُن کے دفتر کے چکر لگا رہے ہیں، تمام واجبات ادا کرچکے، ترقیاتی اخراجات بھی عوام نے ادا کردیے، آج لاکھوں کا پلاٹ کروڑوں کی قیمت تک پہنچ گئے ہیں میرا بھی ایک پلاٹ گرین ویلی میں بک ہے مگر لگتا ہے میں جب دنیا سے رخصت ہوجائوں گا تو پلاٹ ملے گا؟؟ اللہ تو رکن الدین والوں کو پکڑے گا۔ کل ان کو اللہ کی عدالت میں جواب دینا ہوگا کتنے لوگ مر گئے اس آسرے میں کہ گرین ویلی میں اُن کا پلاٹ موجود ہے وہ اس پر گھر بنا کر رہیں گے مگر ان کو گھر تو نہیں مل سکا قبر ضرور مل گئی، اس طرح سے ایک کرپٹ کوآپریٹو سوسائٹی ہے فیڈرل ایمپلائز کوآپریٹو سوسائٹی والد مرحوم نے اس میں دوسو گز کا پلاٹ بک کروایا تھا۔ پیسے جمع کروائے، یہ بات 1968ء کے قریب کی ہے۔ ایک ہزار روپے یو بی ایل میں جمع کروائیں رئوف صاحب اور کمالی صاحب اس کے کرتا دھرتا تھے نسرین بلڈنگ میں اس کا دفتر تھا۔ میں چھوٹا سا تھا والد صاحب نے اس پلاٹ کے حصول کے لیے 100 چکر لگائے جب جاتے کمالی کہتا ہماری زمین پر قبضہ ہے، آپ کا نام ویٹنگ میں ہے تمام رجسٹرڈ میں والد صاحب کا نام عبدالصغیر خان لکھا تھا جب جاتے ٹوپی دے دی جاتی پھر دفتر گلشن اقبال شفٹ ہوگیا اور 19-12-2000 کو والد صاحب پلاٹ کی آس لے کر دنیا سے رخصت ہوگئے پھر میں نے نیب کو سوسائٹی کے خلاف ایک درخواست دی کیونکہ کمالی ST کاٹ کر اُن لوگوں کو الاٹ کررہا تھا جن کے پاس بڑی سفارش تھی نیب نے اور رجسٹرار صاحب نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ کمالی نے مجھے خوف زدہ کرنے کے لیے اپنے وکیل کے ذریعے ہتک عزت کا نوٹس بھیج دیا۔ میں نے باقاعدہ بہن مرحومہ اور 2 بھائیوں نے اپنے حق میں NOC لے کر جمع کروائی مگر آج تک مجھے پلاٹ نہیں مل سکا۔
اس سوسائٹی کے تمام عہدیدار کروڑ پتی بن چکے ہیں ایک ہزار اس وقت کے آج کروڑ کے برابر ہیں اگر سوسائٹی پلاٹ نہیں دے سکتی تو مجھے 120 گز کے پلاٹ کی آج کی قیمت ادا کرکے، ہمیشہ کے لیے میری فائل کو بند کردے نہیں تو جس دن مجھے کسی جنرل کی یا حکومتی طاقت ور شخصیت کی یا حافظ نعیم الرحمن کی سفارش مل گئی تو پلاٹ تو میرا حق ہے۔ یہ میرے والد کی محنت اور ایمانداری کی کمائی سے خریدا ہوا پلاٹ ہے جو دینا سوسائٹی کی ذمے داری ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ آپ کا ابن آدم کس طرح سے سماج کی جنگ لڑ رہا ہے جو خود اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں کرسکا بس ہر حال میں اپنے اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہوں کہ مالک میں حق پر ہوں گرین ویلی کا میرا پلاٹ اور فیڈرل ایمپلائز سوسائٹی کا پلاٹ اللہ ہی دلوا سکتا ہے۔ میں نے تو بہت کوشش کرلی مگر کرپٹ معاشرے میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ کاش آرمی چیف، چیف جسٹس، صدر پاکستان وزیراعظم یا وزیراعلیٰ سندھ میرا یہ کالم پڑھ لیں یا حافظ نعیم الرحمن کی نظر سے گزرے اور کسی کے دل میں میری بات اتر جائے تو پھر میرے دونوں کام ہوسکتے ہیں، نہیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے میں بھی خاک میں مل جائوں گا اور حشر کے دن اپنے اللہ سے انصاف مانگوں گا کیونکہ زمین پر تو میری کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔