نواز شریف اس وقت ملک کے سینئر سیاست دان ہیں تین بار وزیر اعظم رہے‘ ایک بار صوبائی وزیر خزانہ اور دو بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے‘ ملک کا ایک طبقہ انہیں ترقی پسند راہنماء سمجھتا ہے‘ دوسرا طبقہ انہیں کاروباری سمجھتا ہے۔ یہ بحث ایک لمبی بحث ہے جس کا آخری سرا کسی کے ہاتھ آج تک نہیں لگ سکا یہ نہ جانے کتنا دور ہے، حال ہی میں چھے سال کی مدت کے بعد دوبارہ مسلم لیگ(ن) کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور اپنے انتخاب کے بعد پھر وہی پرانی بات‘ مجھے کس نے نکالا‘ جس نے نکالا اب وہ خود کہاں ہے؟ اگر بات یہاں سے شروع کریں آپ کو لایا کون تھا؟ کیا یہ بات بہتر نہ ہوگی؟ صوبہ پنجاب کے ’’غیر آئینی حکمران‘‘ جنرل جیلانی آپ کو اپنی کابینہ میں لے کر آئے تھے‘ صوبائی وزارت خزانہ کا قلم دان دیا ٹاسک یہ تھا کہ پنجاب میں قدم جمائیں اور پیپلزپارٹی کا راستہ روکیں‘ تاجر تنظیمیں آپ کے ہاتھ میں دی گئیں، وکلا کی حمایت آپ کے لیے میسر کی گئی، جس پر آپ کو نکالنے کا گلہ ہے۔ اس کو آپ نے ہی پہلے لاہور بار ایسو سی ایشن کا صدر بنوایا اس کے بعد ہائی بار کا صدر بھی بنوایا، سیکرٹری لا بھی بنایا، ہائی کورٹ کا جج بھی بنایا، جب تک آپ کو آسانیاں ملتی رہیں اور آپ کے کام ہوتے رہے تب تک سب کچھ درست تھا کیا یہ بات درست نہیں کہ آپ کو جس بھی بات سے منع کیا گیا آپ مانے نہیں ۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ آپ ایسا اقتدار چاہتے تھے کہ ’’سنجیاں ہوجان ساری گلیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘۔
1985 کے عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے آپ لاہور سے ایک قومی اور ایک صوبائی نشست پر کامیاب ہوئے صوبائی وزارت اعلیٰ کے لیے ملک اللہ یار، مخدوم حسن محمود تگڑے امیدوار تھے، سرفراز نواز (کرکٹر) بھی اس عہدے کے لیے امیدوار تھے آپ کا اس منصب پر انتخاب کیسے ہوا؟ کبھی اس رازکو کھولیے‘ کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ گورنر جیلانی سے آپ بہت تنگ تھے اور ان کی رخصتی کے منتظر رہتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے جب تک یہ گورنر ہیں ’’میں کہاں کا وزیر اعلیٰ ہوں‘‘ کبھی یہ راز بھی کھولیے کہ گورنرجیلانی کیسے رخصت ہوئے؟ 1985 سے 28 مئی تک آپ محمد خان جونیجو کے وزیر اعلیٰ تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے اسمبلی توڑی تو آپ جونیجو کے بجائے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ 17 اگست1988 کو ضیاء الحق کی شہادت کے بعد آپ کے لیے سیاست میں سہارا کون بنا؟ کبھی اس پر بات کیجیے‘ کس نے آئی جے آئی آپ کی جھولی میںڈالی؟ اس پر بھی ضرور بات ہونی چاہیے۔
1990 عراق کویت جنگ ہوتی ہے آپ اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ پیج پر ہی نہیں تھے، وہ اپنے طیارے پر بیرون ملک دورے پر تھے آپ اپنے طیارے پر الگ سمت میں چل رہے تھے۔ 6 اگست1990 کو بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑ دی جائی اور غلام مصطفی جتوئی نگران وزیر اعظم بنتے ہیں انتخابات ہوتے ہیں تو جتوئی صاحب کسی بھی حلقے سے کامیاب نہیں ہوئے بعد میں انہیں ناروال سے کامیاب کرایا گیا‘ کیا یہ بات سچ نہیں کہ غلام مصطفی جتوئی بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے مگر اس دوڑ سے وہ کیسے الگ کیے گئے؟ کبھی اس پر بھی بات کیجیے! کیا یہ بات سچ نہیں کہ جب ملک میں مرکز میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں آپ وزیر اعلیٰ تھے ایک وقت ایسا نہیں آگیا تھا کہ آپ پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں باندھ رہے تھے؟ مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور اسی دور میں کراچی میں آپ کا جوناتھن جہاز روکا گیا تھا اسی دور میں آپ نے پنجاب بینک شروع کیا‘ اسی دور میں کوآپریٹو ادارے بنے‘ پھر یہ ادارے لوٹے بھی گئے۔
جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل آصف نواز آرمی چیف بنے غلام اسحاق خان ملک کے صدر تھے، یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے جنرل آصف نواز آپ کی مرکز میں حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے مگر غلام اسحاق خان نے انہیں روکے رکھا‘ پھر اپریل 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے 58/2/b کا اختیار استعمال کیا اور آپ کی حکومت برطرف کردی‘ عدالت عظمیٰ نے آپ کی حکومت بحال کی‘ جسٹس نسیم حسن شاہ آپ کے محسن تھے‘ آصف سعید کھوسہ کا فیصلہ آپ کے خلاف آگیا‘ ذرا بتائیے کہ ان دونوں کا آپس میں رشتہ اور تعلق کیا ہے؟ یوں وقت گزرتا گیا اور 1996 آگیا‘ نومبر میں صدر فاروق لغاری نے پیپلزپارٹی کی حکومت برطرف کردی‘ ملک معراج خالد نگران وزیر اعظم بنائے گئے‘ فیصلہ ہوا کہ جس نے بھی بینک کا قرض کھایا وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا‘ لیکن یہ قانون بدل دیا گیا اور اسی نگران کابینہ میں اسی مسئلہ پر فخر الدین جی ابراہیم الگ ہوگئے۔ جب عام انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں محض 14 نشستوں تک محدود ہوگئی‘ آپ کو دوتہائی سے بھی زیادہ اکثریت ملی‘ مگر آپ سنبھال نہ سکے، اس وقت بے نظیر بھٹو نے اسمبلی میں کہا تھا‘ ’’میاں صاحب اپنا رویہ بہتر بنائیں ورنہ یہ اکثریت نہیں چلے گی نہ آپ کو بچا پائے گی‘‘۔ آپ نے اس دور میں دو کام کیے‘ پہلا یہ ایٹمی دھماکہ کیا‘ اس فیصلے نے آپ کو عزت دی اور دوسرا کام آپ نے جنرل مشرف کی برطرفی کا کیا اس فیصلے نے آپ کا اقتدار چھین لیا‘ زندگی میں پہلی بار آپ جیل گئے، سزا ہوئی اور سزا نہیں کاٹی گئی۔ معاہدہ کرکے خاندان سمیت سعودی عرب جانا پڑا، سیاست سے الگ ہوجانے کا معاہدہ مکمل ہوا تو آپ دوبارہ اسمبلی میں آتے اور وزیر اعظم بن گئے‘ بدلہ لینے ٹھانی‘ لیکن پھر ناکام ہوئے‘ اسی دور میں پاناما پیپرز آگئے۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ سب کچھ آپ کا کمبل چرانے کا بہانہ تھا‘ جو فیصلہ سنایا گیا وہ دو روز پہلے سب کو معلوم تھا‘ لیکن بات یہ ہے کہ آپ کتنا مزید ماضی میں رہیں گے۔ مستقبل کی طرف کب دیکھیں گے؟ مستقبل کی طرف آجائیں، ماضی سب کا بہت برا ہے، ماضی کے بہت تلخ سوالات ہیں آپ ماضی کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ آگے بڑھیں اگر آپ میں کچھ کرنے کا دم ہے تو ماضی سے نکلیں اور آگے بڑھیں۔