30مئی کا دن آتے ہی دل افسردہ اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔ 30مئی 2005 جب جمال طاہر شہید کی نماز جنازہ کے بعد لانڈھی میں متحدہ قومی موومنٹ کے دہشت گردوں نے امن ومحبت کا پرچار کرنے والے اور اپنے غیر سب کے ساتھ شفقت اور خلوص کے ساتھ پیش آنے والے اس عظیم انسان کو اسلحہ کے زور پر اغوا کرنے اور بدترین تشدد کا نشانہ بنا نے کے بعد سینے پر گولی مار کر شہید کردیا۔ اسلم مجاہد کے قتل کی ایف آئی آر میں نامزد متحدہ کے سیکٹر انچارچ فاروق بیگ اور ایس ایچ او انور جعفری مکافات عمل کا شکار ہوتے ہوئے خود دہشت گردی کا نشانہ بنے اور اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ 2005 کے بعد آج 19برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود کون سا لمحہ اور دن ہے جب یہ مرد مجاہد ہماری نظروں اور ہماری یادوں سے اوجھل ہوا ہے۔
جماعت اسلامی ایک نظریاتی تحریک اور جماعت ہے بانی جماعت سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی رحلت کے بعد بھی یہ تحریک الحمدللہ موجود اور طاقت ور اور توانا ہے لوگوں کے آنے جانے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان شخصیات کے گہرے نقوش برسوں تک قائم رہتے ہیں۔ شہید محمد اسلم مجاہد ایک جرأت مند بہادر انسان تھے۔ بندگان خدا کی خدمت کو انہوں نے اپنا شعار بنایا اور وہ غیب اور مفلوک الحال لوگوں کی خدمت کے لیے وہ پیش پیش رہتے۔ زمانہ طالب علمی سے لیکر عبدالستار افغانی کی میئر شب کے پہلے دور اور پھر 1985 کے غیرجماعتی انتخابات میں پی ایس 94 کی صوبائی اسمبلی کی نشست کی تاریخی کامیابی حاصل کی۔ پی ایس 94 اس وقت کورنگی قیوم آباد سے لیکر کورنگی کے ایریا، بلال کالونی، عوامی کالونی، چکرا گوٹھ، اراکان آباد، سوکواٹر تک پھیلا ہوا تھا اور اب یہاں اس حدود میں تین صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ہیں۔ اسلم مجاہد نے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سندھ اسمبلی میں اس وقت کے سب سے کم عمر رکن تھے ان کی صوبائی اسمبلی کی نشست تین سال تک محدود رہی اور انہوں نے اس مختصر عرصے میں جو کام کیے وہ آج تک یاد رکھے جاتے ہیں۔ ان کے دور میں قیوم آباد کو پانی اور ٹیلی فون کی سہولت
مہیا کی گئی۔ چکرا گوٹھ میں سوئی گیس پہنچائی گئی۔ اس کے علاوہ کورنگی انڈسٹریل ایریا کا جام صادق پل اور شہید ملت ایکسٹینشن روڈ کی تعمیر کی گئی۔ ملیر ندی کے اطراف میں ورلڈ بینک کے تعاون سے پشتے کی تعمیر کی گئی جس کی وجہ سے کورنگی لانڈھی، شاہ فیصل کالونی، عظیم پورہ، اختر کالونی، منظور کالونی، محمود آباد، کشمیر کالونی بارش میں سیلابی ریلے سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے۔ کورنگی لانڈھی میں درجنوں کی تعداد میں اسکول، کالج، اسپتال، ڈسپنسری تعمیر کی گئی اور ان کے کونسلر شپ میں ان کے حلقہ میں اسپورٹس کمپلیکس کورنگی ساڑھے تین، بلدیہ اسپتال ڈھائی نمبر اور خواتین کے لیے پردہ پارک تعمیر کیے گئے۔ جماعت اسلامی ضلع بن قاسم کے دور امارات میں انہوں نے کورنگی ساڑھے تین پر الخدمت اسپتال قائم کیا مین روڈ پر تین مکانوں پر قائم الخدمت اسپتال بلاشبہ شہید محمد اسلم مجاہد کے لیے صدقہ جاریہ کا کام کررہا ہے۔ روزآنہ سیکڑوں غریب لوگ اپنے علاج معالجے کے لیے یہاں آتے ہیں اور انتہائی کم پیسوں میں اپنا علاج کراتے ہیں۔
شہید محمد اسلم مجاہد ایک بہادر جرأت مند شخصیت کے مالک تھے ان کی نس نس میں عوام کے ساتھ عقیدت اور محبت بھری ہوئی تھی۔ زمانہ طالب علمی سے لیکر اپنی شہادت تک وہ انتہائی متحرک رہے۔ 1985 میں صوبائی اسمبلی میں ان کے ساتھ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ، اطہر قریشی، اخلاق احمد، عباس باوزیر، بابو غلام حسین کامیاب ہوئے تھے۔ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ قائد حزب اختلاف تھے اور غوث علی شاہ وزیر اعلیٰ سندھ تھے۔ عباس باوزیر جماعت اسلامی سے نارا ض ہوکر سندھ حکومت میں شامل ہوگئے اور صوبائی وزیر محنت بنے۔ اسلم مجاہد پر بھی بہت پریشر تھا اور آئے روز انہیں وزارت کی پیش کش ہوتی تھی۔ سینیٹ کے انتخاب میں جماعت اسلامی نے لیاقت جتوئی گروپ کی حمایت کی تھی اور لیاقت جتوئی گروپ جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کا پابند تھا۔ اسلم مجاہد کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نوٹوں سے بھرے بریف کیس لیکر آئے اور ان کا ووٹ خریدنے کی پیش کش کی جس پر اسلم مجاہد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں گھر سے نکل جانے کا کہا۔
92 کے آپریشن میں جب پولیس، فوج اور رینجرز جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری کے لیے پوری پوری آبادی کو گرفتار کررہی تھی ایسے میں اسلم مجاہد ہی تھے جو ان غریب اور بے گناہ لوگوں کے مسیحا بنے اور ان مظلوموںکی مدد کو پہنچے اور اسلم مجاہد نے ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کو فوج اور پولیس سے رہائی دلوائی۔ ان کی سربراہی میں کورنگی لانڈھی میں 2001 میں شہری حکومت کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے الخدمت گروپ نے زبردست کامیابی حاصل کی اور کورنگی ٹائون میں عبدالجمیل خان اور لانڈھی ٹائون میں محمد شاہد ٹائون ناظم منتخب ہوگئے۔ قصر ِناز میں ایک میٹنگ جس میں میں خود بھی موجود تھا۔ مسلم لیگ ق کے علیم عادل شیخ نے ڈپٹی سٹی ناظم کے طور پر مسترد کیے جانے پر جماعت اسلامی کو دھمکیاں دیں کہ وہ کورنگی لانڈھی اور بن قاسم ٹائون جماعت اسلامی کو جیتنے نہیں دیں گے۔ اسلم مجاہد نے اسی وقت علیم عادل شیخ کے چیلنج کو قبول کیا اور کہا کہ وہ کتنا ہی زور لگا لیں ہم تینوں ٹائون جیت کر دکھائیں گے۔ علیم عادل شیخ نے
ان تینوں ٹائون میں اپنے پینل کی کامیابی کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا لیکن اللہ پاک نے الخدمت گروپ کو کامیابی عطا فرمائی اور الخدمت گروپ کے ٹائون ناظم کورنگی عبدالجمیل خان اور لانڈھی ٹائون محمد شاہد نے علاقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام کیے اور عوام آج تک اس دور کو یاد کرتے ہیں۔ اسلم مجاہد کی سب سے بہترین بات یہ تھی کہ وہ سخت سے سخت بات خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتے تھے اور اپنے کارکنان ہی کیا عام آدمی کے ساتھ بھی انتہائی خلوص اور محبت کے ساتھ پیش آتے۔ اللہ پاک نے انہیں بڑے وسائل سے نوازا تھا لیکن ان کا دل بھی بہت وسیع تھا۔ ان کا گھر جماعت اسلامی کا مرکزتھا اور ان کا دسترخوان بھی بہت وسیع تھا اور آئے دن سیاسی اجلاس اور اجتماعات منعقد ہوتے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد اور نائب امیر پروفیسر غفور احمد ان سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ ان کی شہادت پر قاضی حسین احمد خصوصی طور پر لاہور سے نمازجنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لائے اور ایم اے جناح روڈ نمائش پر ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور نماز جنازہ میں تاحد نظر عوام کا سمندر امنڈ آیاتھا اور کراچی کے مظلوم مجبور عوام اپنے ہر دلعزیز رہنما کو خرا ج تحسین پیش کررہے تھے۔ اسلم مجاہد ہمیشہ کورنگی لانڈھی کی عوام سے ایک بات کہتے تھے کہ میں آپ کا بھائی ہوں اور آپ کے درمیان ہی رہتا ہوں حالات کچھ بھی ہوجائیں میں کورنگی لانڈھی کی عوام کو تنہا نہیں چھوڑوں گا اور آخری سانسوں تک یہاں کی عوام کے ساتھ ہی رہوں گا۔ بلاشبہ شہید محمد اسلم مجاہدکی یہ بات پوری ہوئی اور وہ اپنی سب سے قیمتی شہ اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کرگئے اور ایک لمحہ بھی دہشت گرودں کے سامنے نہیں جھکے اور شہادت کا عظیم رتبہ حاصل کیا۔