ایک خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ اْن کی نظر میں کوئی جسٹس قابل ِ احترام نہیں مگر وہ چیف جسٹس فائزعیسیٰ کی تہہ دل سے عزت کرتی ہیں کیونکہ اْنہوں نے اپنی کارکردگی سے عزت کمائی ہے موصوفہ نے اس کمائی کے ذرائع بھی گنوائے ہیں اْن کے خیال میں پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھنا اور بھٹو ٹرائل کو غلط قرار دینا علاوہ ازیں تاحیات نااہلی کی سزا کو معطل کرنا بھی قابل ِ تحسین فیصلہ ہے یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ان کے قابل ِ احترام جسٹس نے عوام کے تحفظات اور عوام کے بنیادی حقوق کے لیے کیا کیا ہے؟ کیونکہ کسی سیاستدان کی تاحیات نااہلی سے عوام کا کوئی تعلق نہیں یہ فیصلہ سیاستدانوں کو عوام پر مسلط رکھنے کے مترادف ہے اور جہاں تک بھٹو ٹرائل کو غلط قرار دینا اور پرویز مشرف کی پھانسی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ہے تو یہ فیصلے بھی 100 فی صد سیاستدانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
اس حقیقت کا ادراک پوری دنیا کو ہے کہ پاکستان کا نظامِ عدل نظام ِ سقہ کے نقش ِ قدم پر چلنے کے سوا کچھ بھی نہیں عدلیہ کی اوّلین ذمے داری اور فرض منصبی یہ ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے مگر حالات و واقعات گواہ ہیں کہ ہماری عدالتیں اس معاملے میں شرم ناک حد تک ناکام رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے سے اْنہیں کوئی دلچسپی نہیں جو شخص وکیل کی فیس ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ کسی کی بھی زندگی تباہ کر سکتاہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عدم ثبوت کی بنیادپر خارج ہونے والے مقدمات کی اپیل در اپیل کا شیطانی چکر آنے والی نسلوں کے پاؤں کا چکر بن جاتا ہے۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ جعلی مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں کیونکہ مدعی کا وکیل تاخیری حربوں اور اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر سے مدعا علیہ کو پیشی در پیشی کی بھول بھلیوں پر بھٹکنے پر مجبور کر دیتا ہے تاکہ وہ مدعی اور مدعا علیہ کے وکیل کی مرضی کے مطابق صلح کرنے پر آمادہ ہو جائے ہائی کورٹس میں ایسے مقدمات زیر ِ سماعت ہیں جو جعل سازی پر مبنی ہیں۔ اہل ِ محلہ نے ایک مدعی کو خوفِ خدا دلانے کی کوشش کی تو اْس نے کہا آدھی جائداد دلا دو مقدمہ واپس لے لوں گا۔
اس تناظر میں بہتر ہو تا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جعلی مقدمات کی اپیل کی لعنت سے سائلین کی جان چھڑاتے۔ یوں شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی ہوجاتا اور لیفٹ اوور کی جاں گسل تحفظ ہی مل جاتا۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جو چیف جسٹس صاحب کو قوم کا ہیرو بنا دیتا مگر موصوف نے تاحال ان پر توجہ نہیں دی۔ پرویز مشرف کو سزائے موت اس لیے سنائی گئی تھی کہ اْنہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا حالانکہ اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ وطن ِ عزیز میں وزیر ِ اعظم سے لیکر سرکاری دفتر کا چپڑاسی بھی اپنے اختیار سے تجاوز کرتا رہتا ہے۔
بھٹو ٹرائل کو غلط قرار دینے کو قابل ِ تحسین عمل قرار دینا قابل ِ تحسین نہیں۔ کیونکہ وطن ِ عزیز میں بے گناہوں کو سزا دینا معمول کی بات ہے اور ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جنہیں نامور وکلا نے بے گناہ ہونے کے باوجود پھانسی کی سزا دلائی انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اْنہیں بھی شہید قرار دیا جائے بے گناہوں کو سزا کے عوض معاوضہ دلایا جائے۔ جعلی مقدمات پر جو نسل در نسل چلتے ہیں اْن کا بھی معاوضہ ملنا چاہیے اور ان مقدمات کی پیروی کرنے والے اور سماعت کرنے والوں کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ
انصاف کے ہاتھوں میں قانون کی زنجیر
قانون ستم گر کی تجوری میں پڑا ہے