مسلسل لکھنے کے بعد سوچا کچھ دن آرام کیا جائے کچھ ایسے موضوعات سامنے آئے جن پر کچھ نہ کچھ نکات ذہن میں آئے جیسے کہ پی ٹی آئی کے ترجمان رئوف حسن پر کھسروں کا حملہ، اداروں کے درمیان گرم و سرد جنگ، ملک کی معاشی حالت خوفناک بھی اور خوشگوار بھی، خوفناک اس حوالے سے ملک کی پچھتر سالہ تاریخ میں سرمایہ کاری کا رجحان سب سے کم سطح پر آجانا، آئی ایم ایف کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات سمیت تمام اشیاء پر جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذکا مطالبہ، خوشگوار اس حوالے سے کہ دوست ملک یو اے ای کی طرف سے دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش، سی پیک کی فعالیت بھی اہم موضوع ہے پھر گندم اسکینڈل رپورٹ کا کیا بنا اور اس طرح چھوٹے بڑے عنوانات ہیں جن پر کچھ نہ کچھ اظہار خیال کرنا ضروری تھا لیکن ایک صحافی جناب افضال ریحان نے نواز شریف کے حوالے کچھ روز قبل اخبار میں ایک مضمون میں جو کچھ لکھا اس تحریر نے فوری طور پر مجھے مجبور کیا کہ اس پر کچھ باتیں کی جائیں، اپنے پسندیدہ رہنمائوں کی تعریف کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن تاریخ کی عظیم اور متفقہ ہستیوں کو کم درجے پر رکھنا ان رہنمائوں کی توہین کے مترادف ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے لکھا کیا ہے۔ افضال ریحان لکھتے ہیں۔
’’ہماری قومی سیاست میں نواز شریف نہ تو مسیحا ہے اور نہ اتاترک جیسا کوئی آئیڈیل لیڈر، وہ کوئی فلاسفر ہے نہ تھنکر، وہ جب بات کررہا ہوتا ہے تو درویش کو کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ہتھے سے نہ اکھڑ جائے۔ اس کے ساتھ ہی اگر تنقید نگار حوصلے سے کام لیتے ہوئے ضمیر کی مطابقت میں اظہار خیال کی اجازت مرحمت فرماویں تو یہ عاجز عرض گزار ہے کہ پچھلے 76,77برسوں میں نہ اس ملک کو نواز شریف جیسا مخلص لیڈر ملااور نہ ہی مسلم لیگ کو 1906ء سے لے کر اب تک ان جیسا بھلا مانس،ہمدرد اور درددل رکھنے والا با اصول صدر۔ نواز شریف پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر کوچہ سیاست میں نمودار ہوئے، کوئی شک نہیں مگر بال کی کھال اتارنے والے ہمارے یہ معترضین شاید پاک وہند ہسٹری کا زیادہ ادراک نہیں رکھتے ورنہ وہ اس حقیقت سے قطعی بے خبر نہ ہوتے کہ مسلم لیگ کی تو پیدائش ہی اپنے وقت کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں ہوئی تھی، ہمارے مرشد سر سید سے بڑھ کر خطہ ہند میں انگریز سرکار کا کون وفادار تھا؟ 1906ء کا کارنامہ کیا اسی محسن اعظم کے شاگردوں نے سرانجام نہیں دیا تھا‘‘۔
یہ جملے پڑھنے کے بعد اچانک یہ شعر زبان پر آتا ہے کہ۔۔۔ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ۔ مسلم لیگ کی قیادت تو قائد اعظم جیسے بااصول سیاستدان اور نوابزادہ لیاقت علی خان جیسے ایثار و قربانی کے پیکر ہستیوں نے کی ہے۔ آپ نے نواز شریف کو ان رہنمائوں سے بھی بڑا رہنما قرار دے دیا اپنے وقت کے جتنے مورخین گزرے ہیں انہوں نے قائد اعظم کو اپنے وقت کا سب سے بڑا لیڈر قرار دیا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے جس فرد کو دو الفاظ لکھنے کی صلاحیت عطا کی ہو وہ اپنے آپ کو عقل کل کیوں سمجھنے لگتا ہے۔ اگر کوئی فرد شراب کے نشے میں نہ ہو اور یہ کہ اس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا نہ ہو تو وہ کبھی یہ بات نہیں لکھ سکتا کہ نواز شریف قائداعظم سے زیادہ بھلے مانس، قائد اعظم سے زیادہ قوم کے ہمدرد اور قائد اعظم سے زیادہ درددل رکھنے والے بااصول سیاستدان ہیں۔ نواز شریف کتنے با اصول سیاستدان ہیں اس کا قصہ بھی سن لیجیے ایک طرف تو نوازشریف قوم سے یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ لوگ یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم جب قدم بڑھاتے ہیں اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو کوئی بھی نہیں ہوتا۔ 1999ء میں جب آپ کی حکومت ختم کی گئی تو قوم آپ کے ساتھ کھڑی تھی پھر یہ کون تھا جو رات کی تاریکی میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے دس سال تک ملکی سیاست سے علٰیحدہ رہنے کا معاہدہ کرکے سعودی عرب چلا گیا۔ پانچ سال بعد واپس آئے تو ان کو بتایا گیا کہ آپ کا معاہدہ تو دس سال کا تھا اصولی سیاستدان نے یہ رٹ لگائی کہ نہیں معاہدہ پانچ سال کا تھا۔ پھر سعودی عرب کے سفیر نے اخباری نمائندوں کو وہ تحریری معاہدہ دکھا دیا جس میں دس سال کا معاہدہ تھا۔ مسلم لیگ کے ایک لیڈر نواب زادہ لیاقت علی خان ہیں جنہوں نے پاکستان کی خاطر قوم کی ہمدردی و غمگساری میں اپنی زمینیں اور جائدادیں تک چھوڑ دیں اور ایک یہ سیاستدان ہیں جن کے بچوں نے قوم کے پیسوں سے لندن میں اپنی پوری امپائر کھڑی کی ہوئی ہے۔
ایک طرف تو درویش لکھتے ہیں کہ نواز شریف بات کررہے ہوتے ہیں تو انہیں یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ ہتھے سے نہ اکھڑ جائیں۔ ایک طرف آپ ان کی یہ خامی ہی خود ہی بیان کررہے ہیں کہ انہیں اپنے جذبات پہ کنٹرول نہیں ہے اور پتا نہیں کیا سے کیا کہہ جائیں اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ 1906 کے بعد سے اب تک ان جیسا بھلا مانس لیڈر اور مخلص رہنما مسلم لیگ کو نہیں ملا حیرت کی بات ہے مولانا حسرت موہانی ہوں، خواجہ ناظم الدین ہوں، سہروردی ہوں، سردار عبد الرب نشتر ہوں اور دوسرے مسلم لیگ کے معتبر رہنمایان کرام ہوں نواز شریف سے زیادہ درد دل رکھنے والے لوگ نہیں تھے۔ میں سمجھتا ہوں فاضل کالم نگار کو اپنی نگارشات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے مسلم لیگ کے معزز رہنمائوں کی توہین کی ہے اور انہیں اس پر قوم سے معافی مانگنا چاہیے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کو قائد اعظم کا اور نوابزادہ لیاقت علی خان کو قائد ملت کا خطاب پوری قوم نے دیا تھا ان رہنمائوں کا کردار پوری دنیا جانتی ہے اس لیے یہ خطابات تو ان کا حق بنتا ہے۔ آج اگر کوئی اپنے کسی لیڈر کو قائد عوام، قائد جمہوریت اور اسی طرح کے دوسرے خطابات سے نوازتا رہے تو ایسا کرنے کا اس کی پارٹی کا حق ہے لیکن اس طرح کے خطابات اب عوام کی طرف سے نہیں دیے جاتے۔