لبرل ازم ایک سیاسی اور سماجی نظریہ ہے جو آزادی، فرد کے حقوق، جمہوریت اور مساوات پر زور دیتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد 17 ویں اور 18 ویں صدی میں مغربی یورپ میں رکھی گئی تھی اور اس کا مقصد بادشاہت اور مذہبی جبر کے خلاف جدوجہد کرنا تھا۔ 19 ویں اور 20 ویں صدی کے دوران، لبرل ازم نے مغربی دنیا میں زبردست مقبولیت حاصل کی۔ مختلف ممالک میں جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں اور بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ معاشی میدان میں آزاد منڈی کا تصور پروان چڑھا اور عالمی تجارت کو فروغ ملا۔لبرل ازم کی معاشی پالیسیوں نے جہاں ایک طرف عالمی معیشت میں عدم مساوات میں اضافہ بھی کیا۔ کچھ افراد اور کارپوریشنوں نے بے حد دولت حاصل کی جب کہ بہت سے لوگ غربت کی دلدل میں پھنس گئے۔ اس کی مثالیں امریکا اور یورپ میں دیکھی جا سکتی ہیں جہاں متوسط طبقہ سکڑتا جا رہا ہے۔
جمہوری نظام میں عوام کی شراکت داری اور اعتماد کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں عوام کا اعتماد حکومتی اداروں اور سیاسی نظام پر کم ہوتا جا رہا ہے۔ بریگزٹ، ٹرمپ کی جیت اور یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہیں کہ لوگ موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی ثقافتی اور سماجی تبدیلیوں نے لبرل ازم کے اصولوں کو چیلنج کیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی، قوم پرستی، اور تارکین وطن کے مسائل نے معاشروں میں تقسیم کو بڑھاوا دیا ہے۔ لبرل ازم کی اقتصادی پالیسیوں نے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال بھی کیا گیا جس سے ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ لبرل ازم کا عالمی بحران ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے مختلف پہلو ہیں۔ اس کا حل صرف ایک جامع اور منصفانہ نظام کی تشکیل میں مضمر ہے جس میں ہر فرد کو حقوق، مواقع اور انصاف فراہم کیا جائے۔
لبرل ازم کے انسانی معاشرے پر مضر اثرات: لبرل ازم کے مضر اثرات میں اقتصادی تفاوت، فرد پرستی، اخلاقی قدروں کا زوال، ثقافتی شناخت کا نقصان، روحانیت اور مذہبی عقائد میں کمی، ماحولیاتی نقصانات، نفسیاتی مسائل، تنہائی اور ڈپریشن کی شکل میں انسانی معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لبرل ازم کی معیشتی پالیسیوں کی وجہ سے اکثر بڑے پیمانے پر اقتصادی تفاوت پیدا ہو جاتا ہے۔ آزاد منڈی کے نظام میں، بڑے کاروباری ادارے اور امیر طبقہ مزید امیر ہوتے جاتے ہیں، جب کہ غریب اور متوسط طبقہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس سے معاشرتی تفاوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لبرل ازم فرد کی آزادی اور خود مختاری پر زور دیتا ہے، جس کے نتیجے میں افراد کمیونٹی اور خاندانی ذمے داریوں سے دور ہو سکتے ہیں۔ اس سے اجتماعی معاشرتی ڈھانچہ کمزور پڑ جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ لبرل ازم میں جنسی آزادی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں خاندانی نظام کمزور پڑتا ہے۔ شادی سے باہر تعلقات، طلاق کی شرح میں اضافہ، اور خاندانی بندھنوں کا کمزور ہونا معاشرتی توازن کو متاثر کرتا ہے۔ لبرل ازم کی وجہ سے عالمگیریت اور مغربی ثقافت کی ترویج ہوتی ہے، جس سے مقامی ثقافتیں اور روایات متاثر ہوتی ہیں۔ لوگ اپنی مقامی زبان، رسوم و رواج اور تہذیب کو ترک کرتے ہوئے مغربی انداز اپنانے لگتے ہیں، جس سے ثقافتی شناخت کا نقصان ہوتا ہے۔
لبرل ازم میں ریاست اور مذہب کی علٰیحدگی کو اہم سمجھا جاتا ہے، جس سے معاشرتی سطح پر مذہبی اور روحانی اقدار میں کمی آ سکتی ہے۔ مذہب کی کمی سے افراد میں روحانی خلا پیدا ہو سکتا ہے۔ آزاد منڈی اور صنعت کاری کی وجہ سے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے، جس سے ماحولیاتی توازن بگڑتا ہے۔ لبرل ازم کی پالیسیوں کے تحت اکثر ماحولیات کی قیمت پر اقتصادی ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ فرد کی آزادی اور خود مختاری کے نتیجے میں لوگ زیادہ تنہائی محسوس کر سکتے ہیں۔ خاندانی اور سماجی رشتوں کی کمی کی وجہ سے ڈپریشن، تناؤ، اور دیگر نفسیاتی مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
اسلام اور لبرل ازم میں تضادات و فرق: لبرل ازم اور اسلام دو مختلف نظریاتی اور مذہبی نظام ہیں جو اپنے اصولوں اور عقائد میں نمایاں فرق رکھتے ہیں۔ لبرل ازم آزادی، فرد کے حقوق اور جمہوریت پر زور دیتا ہے جب کہ اسلام ایک جامع نظام حیات ہے جو عقیدے، عبادت، اخلاقیات اور قانون کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام اور لبرل ازم دو مختلف نظریاتی نظام ہیں جو مختلف اصولوں اور عقائد پر مبنی ہیں۔ ان دونوں نظریات میں متعدد تضادات موجود ہیں جو ان کے اصولوں، عقائد اور عملی پہلوؤں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ ان تضادات کو مختلف زاویوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اسلام اور لبرل ازم کے درمیان موجود تضادات ان کے بنیادی اصولوں اور عقائد میں واضح ہیں۔ دونوں نظریات اپنے اپنے دائرے میں منفرد ہیں اور ان کی بنیاد پر قائم معاشرتی، سیاسی، اور قانونی نظام مختلف ہیں، ان تضادات کو سمجھنا اہم ہے، تاکہ مختلف معاشروں میں ان نظریات کے مطابق مسائل اور ان کے حل کی نشاندہی کی جا سکے۔
1۔ بنیادی اصول: لبرل ازم فرد کی آزادی اور خود مختاری پر زور دیتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی زندگی کے بارے میں فیصلے کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ لبرل ازم تمام افراد کو مساوی حقوق اور مواقع فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لبرل ازم جمہوری نظام حکومت کی حمایت کرتا ہے جہاں عوام کی رائے اور انتخاب کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلام کی بنیاد اللہ کی وحدانیت پر ہے، اور تمام اسلامی اصول و قوانین اسی عقیدے سے ماخوذ ہیں۔ اسلام میں شریعت یعنی اسلامی قانون کی پیروی لازمی ہے جو قرآن اور سنت پر مبنی ہے۔ اسلام میں سماجی انصاف، مساوات اور عدالت پر زور دیا گیا ہے، اور تمام انسانوں کے حقوق اور فرائض کا تعین اسلامی اصولوں کے مطابق کیا جاتا ہے۔
2۔ قانون اور نظام حکومت: لبرل ازم میں سیکولر قوانین انسانی عقل، تجربات، اور عوام کی رائے پر مبنی ہوتے ہیں۔ ریاست اور مذہب کے درمیان علٰیحدگی ہوتی ہے۔ لبرل ازم جمہوری نظام حکومت کی حمایت کرتا ہے جہاں عوامی نمائندے قانون سازی کرتے ہیں۔ اسلام میں قوانین یا شریعت، قرآن و سنّت پر مبنی ہوتے ہیں اور انہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام میں حکومت کا نظام خلافت یا اسلامی طرز حکومت پر مبنی ہوتا ہے جہاں حکمران اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ جہاں اسلامی قوانین اور اصولوں کی پیروی لازمی ہے۔ سیاست اور مذہب کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں کیا جاتا۔
3۔ فرد اور معاشرت: لبرل ازم فرد کے حقوق کو اہمیت دیتا ہے، اور ہر شخص کو اپنی زندگی کے بارے میں فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ لبرل ازم میں اظہار رائے کی مکمل آزادی کی حمایت کی جاتی ہے، چاہے وہ مذہب یا کسی بھی دوسری چیز کے بارے میں ہو۔ اسلام میں انفرادی حقوق کے ساتھ ساتھ اجتماعی حقوق اور فرائض پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں اظہار رائے کی آزادی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے لیکِن اسے محدود کیا گیا ہے، خاص طور پر ایسی باتوں کی سختی سے ممانعت ہے جو اسلام، پیغمبر اسلام، یا دیگر مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی سمجھی جائیں۔
4۔ اخلاقیات اور معاشرتی اصول: لبرل ازم میں اخلاقی اصول نسبتی ہوتے ہیں اور مختلف ثقافتوں اور افراد کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں۔ لبرل ازم میں جنسی آزادی کو اہمیت دی جاتی ہے اور ہر فرد کو اپنی جنسی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، چاہے وہ ہم جنس پرستی ہو یا کسی بھی قسم کی رضامندی پر مبنی تعلقات۔ اسلام میں اخلاقی اصول مطلق ہیں اور قرآن و سنت پر مبنی ہیں۔ اسلام میں جنسی اخلاقیات کے اصول بنائے گئے ہیں۔ جنسی تعلقات صرف نکاح کی صورت میں جائز ہیں اور زنا، ہم جنس پرستی، اور دیگر غیر شرعی تعلقات کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام میں مرد اور عورت کے حقوق اور فرائض مخصوص ہیں۔ مردوں کو خاندان کا نگران اور کفیل مانا گیا ہے جب کہ خواتین کو گھر اور بچوں کی پرورش کی ذمّہ داری سونپی گئی ہے۔ بعض معاملات میں عورتوں کے حقوق مردوں سے مختلف ہو سکتے ہیں، جیسے وراثت میں حصّہ وغیرہ۔
5۔ معاشرتی انصاف: لبرل ازم آزاد منڈی اور کیپیٹلزم کی حمایت کرتا ہے، جہاں معاشی سرگرمیوں میں کم سے کم حکومتی مداخلت ہوتی ہے۔ لبرل ازم میں معاشرتی انصاف کے لیے حکومتی پالیسیوں کے ذریعے غربت اور عدم مساوات کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام میں معاشی انصاف کے لیے زکواۃ، صدقہ، اور دیگر فلاحی اصول موجود ہیں جن کے ذریعے دولت کی منصفانہ تقسیم کی جاتی ہے۔ اسلام میں سود کی سختی سے ممانعت ہے اور اسلامی معیشت میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ لبرل ازم اور اسلام دو مختلف نظریاتی نظام ہیں جو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختلف نقطہ ٔ نظر پیش کرتے ہیں۔ لبرل ازم فرد کی آزادی، مساوات، اور جمہوریت پر زور دیتا ہے جبکہ اسلام توحید، شریعت، اور اجتماعی انصاف پر مبنی ہے۔ ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھنا مختلف معاشرتی، سیاسی، اور قانونی نظامات کی بنیاد کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔