28 مئی ملک کی تاریخ کا ایک یاد گار دن ہے، جس نے 16دسمبر 1971 کا زخم کسی حد تک بھرنے کی کوشش کی، پاکستان دنیا میں ایک ایسا ملک ہے جہاں محسنوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوا، قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے لمحات آج بھی تحقیق طلب ہیں، پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھرے جلسے میں گولیوں سے بھون دیے گئے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، فاطمہ جناح کو غدار تک ٹھیرایا گیا، ایٹمی پروگرام کے خالق محسن پاکستان ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان (نشان پاکستان) کی زندگی کی آخری دس پندرہ سال کس اذیت سے گزرے یہ صرف ان کی فیملی جانتی ہے اور کوئی نہیں جانتا، پرویز مشرف کے گماشتوں نے مغربی میڈیا کے بہکاوے میں آکر ان کی کردار کشی کی مہم میں اپنے ضمیر کی آواز پر ایسی مہم چلائی جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی گھن آتی ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان 1975 میں پاکستان آتے ہیں اور اسلام آباد میں فیصل مسجد کے قریب سیکٹر ای سیون میں ایک چھوٹا سا پلاٹ خرید کر اپنا گھر تعمیر کرتے ہیں، یہ گھر آج بھی قیمتی گھروں کے درمیان ایک سادہ سا گھر ہے۔
یہ غالباً 1991 یا 1992 کی بات ہے، ملک میں آئی جے آئی کی حکومت تھی نواز شریف حکومت کے سربراہ تھے، اور پیپلزپارٹی اپوزیشن میں تھی، انہی دنوں میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ اور فیملی کی خواہش پر نواحی علاقہ بنی گالا میں ایک پلاٹ خریدا اور گھر تعمیر کیا، پلاٹ کی پوری قیمت دی گئی اور گھر کی تعمیر کے لیے کسی سے مالی مدد نہیں مانگی، لیکن انہی دنوں شہر میں ایک لابی نے شور مچایا کہ بنی گالا میں ہونے والی تعمیرات غیر قانونی ہیں، یہ لابی امریکیوں کے بہت قریب تھی اور مقامی میڈیا نے بھی آئو دیکھا نہ تائو، اس شور میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا، ڈاکٹر صاحب کی فیملی اس گھر میں منتقل بھی ہوئی تھی کہ بنی گالا کی تعمیرات کے غیر قانونی ہونے کے شور کے باعث یہ گھر بھی گرانے کا حکم جاری ہوا، جب سی ڈی اے کا عملہ آپریشن کرنے وہاں پہنچا تو اسے عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد ایک کمیٹی بنائی گئی جو اس معاملے کو دیکھے گی، انور سیف اللہ اس کابینہ میں وزیر ماحولیات تھے، نواز شریف کے معتمد ساتھی ملک نعیم اس کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے، انور سیف اللہ، حاجی نواز کھوکھر اور سی ڈے اے کے فرید الدین اس کمیٹی میں شامل تھے، کمیٹی نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی اور انہیں پیش کش کی کہ پلاٹ اور گھر کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات لے لیں، معاوضہ قبول کرلیں اور کسی دوسری جگہ پلاٹ لے کر گھر تعمیر کرلیں، ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ صرف یہ بتا دیا جائے کہ پلاٹ کی خریداری غیر قانونی ہوئی؟ گھر کا نقشہ منظور کرائے بغیر گھر تعمیر ہوا؟ جواب ملا نہیں، پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا اگر یہ سب کچھ قانونی عمل کے ساتھ ہوا تو میں یہاں سے کیوں جائوں؟ میں تو عدالت سے رجوع کروں گا، ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ جب تک آپ عدالت پہنچیں گے اس وقت تک گھر منہدم ہو چکا ہوگا، انور سیف اللہ کہتے ہیں یہ بات حاجی نواز کھوکھر نے کہی تھی، انور سیف اللہ خان کی ایک اور گواہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر کو گرانے کا حتمی فیصلہ نواز شریف کا تھا، گھر منہدم کرنے کے لیے سی ڈی اے کی ٹیم جس کو آپریشن کرنا تھا، خالد طورو کو اس کا سربراہ بنایا گیا، لیکن یہ آپریشن عوامی مزاحمت نے ناکام بنایا، بعد میں کیا ہوا یہ بھی اب اسلام آباد اور سی ڈی اے کی تاریخ کا ایک باب ہے، اسے پڑھ کر شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
ایک جانب یہ واقعہ اور دوسری جانب یہ حقیقت کہ آج بھی بنی گالا میں ایک بڑا گھر موجود ہے، تین سو کنال پر محیط، مجال ہے کسی نے اس جانب دیکھا بھی ہو اور یہ بھی سن لیجیے، ہنری کسنجر نے صاحب زادہ یعقوب علی خان کے ذریعے یہ پیغام بھیجا تھا کہ ’’اس کا خیال رکھنا یہ ہمارا بلیو آئی بوائے ہے‘‘ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ نواز شریف ڈاکٹر عبد القدیر خان کو صدر مملکت کے عہدے پر دیکھنے کے متمنی تھے، اگر کسی کو موازنہ کرنا ہے تو صرف یہی کہنا کافی ہے کہ یہ بنی گالا والا گھر گرائے جانے کا حکم دینا ہی ڈاکٹر صاحب کو صدر مملکت بنائے جانے کی خواہش کے دعوے پر بھاری ہے۔
جس وقت بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا اس وقت بھی ملک میں نواز شریف کی حکومت تھی اور وہ ان دنوں وسط ایشاء کی ریاستوں کے دورے پر تھے، جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے، ائر ماشل عباس خٹک، فضائیہ کے سربراہ اور ایڈمرل منصور الحق بحریہ کے اس وقت سربراہ تھے، ائر چیف مارشل عباس خٹک کی رائے تھی کہ ہمیں دھماکہ کردینا چاہیے، تاہم جنرل جہانگیر کرامت اور ایڈمرل منصور الحق کی رائے تھی کہ فیصلہ کے لیے جلد بازی نہیں گہری سوچ و بچار کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کچھ فود بیرون ملک بھی بھیجے، تاکہ دوست ممالک کو اعتماد میں لیا جائے، نام لکھنا مناسب نہیں سعودی عرب کے سوا تمام مسلم ممالک نے کہا دھماکے کا جواب دینے کے بجائے در گزر کیا جائے، امریکا نے پانچ بلین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا کہ پاکستان دھماکہ نہ کرے امداد لے لے، مگر دھماکہ کرنے کے بعد نواز شریف نے بل کلنٹن کو فون کیا کہ ہم نے دھماکہ کردیا ہے، بل کلنٹن نے جواب دیا کہ ’’مجھے افسوس ہے کہ میرے ہاتھ بندھ ہوئے ہیں اور اب مجھے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانا پڑیں گی‘‘ اس واقعہ کے امریکا نے پاکستان کی حکومت کو دور کرنے کے بجائے اسے افغانستان میں پائے گئے ایسے حالات کی نشان دہی کرکے مدد لینے کا فیصلہ کیا اور کلنٹن نے کئی بار نواز شریف کو فن کیے کہ افغانستان میں ایک ایسا گروہ قوت پکڑ رہا ہے جو پاکستان اور اس خطہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں فسادات کرانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، یہی وجہ تھی اس نے پاکستان کے راستے افغانستان میں میزائل مارنے کی اجازت حاصل کی، اس کے بعد قندھار میں کروز میزائل مارے گئے، ایٹمی دھماکے سے جڑے ہوئے یہ تمام واقعات اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت کو اس خطہ کے بارے میں، پوری دنیا کے بارے میں بدلتے ہوئے حالات کا ادراک رکھنا کتنا ضروری ہے، صرف سیاسی بیانات داغتے رہنا ہی کافی نہیں ہے۔
1998 میں ہم نے دھماکہ کیا اور سوچیے کہ اگلے سال ملک میں حکومت برطرف کردی گئی اور پرویز مشرف اقتدار میں آگئے، اور امریکا نے کیا کیا کام ہم سے لیے اور مکافات عمل کیا ہے؟ پرویز مشرف نے 2004 میں چار فروری کو جب پوری قوم اگلے روز یوم یک جہتی کشمیر منانے کی تیاری کر رہی تھی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکا کی فرمائش پر نظر بند کردیا اور ٹیلی ویژن پر انہیں معافی ماگنے پر مجبور کیا، پھر یہی مشرف چار سال کے بعد اٹھارہ اگست 2008 کو بطور صدر پاکستان قوم سے معافی مانگ رہے تھے اور اقتدار کے لیے ترلے منتیں کرتے ہوئے استعفا دینے پر مجبور ہوئے قوم سے خطاب کے دوران استعفا دیا، اس سے بڑی سزا اور کیا ہوسکتی ہے، جس نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو معافی مانگنے پر مجبور کیا، ڈاکٹر صاحب کے لیے تو آج بھی ملک کا ایک ایک شہری دعاگو ہے، انہیں محسن پاکستان تسلیم کرتا ہے اور انہیں آج بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، پرویز مشرف کو کون جانتا ہے؟ کون انہیں محسن پاکستان کہتا ہے؟ کوئی نہیں۔