پراسراریت کے پردوں میں چھپا سانحہ

399

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر پُراسرار حادثے کا شکار ہو کر شریک سفر ایرانی وزیر خارجہ اور دیگر رفقا کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ وہ امریکا کے تیار کردہ ہیلی کاپٹر 212 کے مسافر تھے۔ یہ رفقا آذربائیجان کے سرحدی علاقے میں ڈیم کا افتتاح کرکے لوٹ رہے تھے کہ یہ سانحہ ہوگیا۔ یہ سانحہ حادثہ تھا یا سازش جس کا شکار یہ اعلیٰ سطحی قیادت ہوئی۔ خبروں کے مطابق یہ تین ہیلی کاپٹرز پر مشتمل ایک قافلہ تھا۔ ایک ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کے مطابق حادثے سے ایک منٹ 30 سیکنڈ قبل اس سانحے کے شکار ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے بات ہوئی جس نے کہا کہ بادل کی ایک ٹکری آرہی ہے ہم دونوں ہیلی کاپٹرز کو بلندی پر لے گئے اور ہم نے نظر دوڑائی تو وی آئی پی کا ہیلی کاپٹر نظر نہ آیا ہم نے اطراف کا جائزہ لیا، ایک منٹ اور 30 سکنڈ کے بعد ماہرین کے مطابق ایسا کیا ہوا کہ ہیلی کاپٹر جو کسی بھی خرابی کی بدولت معمولی جگہ پر اُتارا جاسکتا ہے وہ نہ اُتارا جاسکا۔ اور تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کا ملبہ تبریز سے دور ایک گھنے جنگل میں تباہ حالت میں ملا اور کوئی بھی لاش شناخت کے قابل نہ تھی۔ اس حادثے کو موسمی خرابی کی وجہ قرار دینے پر ماہرین حیران ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس تباہ کاری کی بنا یہ ہوسکتی ہے کہ نیچے سے کوئی میزائل مارا گیا ہو یا ہیلی کاپٹر میں کوئی بارود فٹ کیا گیا ہو جس نے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کو سنبھلنے اور امدادی پیغام تک بھجوانے کی مہلت نہ دی۔ یہ حادثہ پاکستان کے صدر ضیا الحق اور ان کے رفقا کی فضائی حادثے میں شہادت سے ملتا جلتا ہے اور پراسراریت کے دبیز پردوں میں چھپا ہوا ہے اور اس میں بھی اُسی حادثے کی طرح غدار اور گھر بھیدی کی شمولیت کے بغیر یہ کچھ ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ روس نے تحقیقات میں مدد و تعاون کی اپیل حکومت ایران کو کی ہے مگر اس کی شنوائی تادم تحریر نہ ہوسکی ہے۔ شاید پردے میں رہنے دو پردہ اُٹھ جائے گا تو راز کھل جائے گا۔ یہ سانحہ بھی ضیا الحق کے سانحے کی طرح داخل دفتر ہوجائے گا۔

اسرائیل نے اُس پر الزام لگنے سے پہلے ہی وضاحت کردی کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ ایران کے صدر کا پاکستان کا دورہ، اور کئی امور پر اتفاق رائے، ایران کی طرف سے اسرائیل پر راکٹوں اور ڈرون حملہ جس کی وجہ سے امریکا کے لاڈلے اسرائیل کو بتانا مقصود تھا کہ تم ہماری رینج سے دور نہیں جو بڑے سبب ہوسکتے ہیں۔ ایران کا جوہری پروگرام جو بقول امریکا کے پاکستان کی دی گئی ٹیکنالوجی کا مرہون منت ہے میں مزید پیش رفت کی بھنک جھوٹی یا سچی امریکا کو پڑ گئی ہو اور اس نے جدید ٹیکنالوجی اور غداران وطن ڈالرز کے پجاریوں اور حکمرانی کے طلب گاروں کو استعمال کرکے ان قائدین کا کانٹا ہی صاف کر ڈالا ہو۔ اب 28 جون کو ایران کے صدارتی انتخابات کیا ویسا ہی رزلٹ دیں گے جیسا ضیا الحق کے طیارہ حادثے کے بعد بے نظیر بھٹو کے اقتدار کی صورت ہوا تھا اور یوں ضیا الحق کے جہادی رفقا اور تجربہ کار ٹیم جو افغان مجاہدین کے ساتھ مل کر مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے تھی کو سبوتاژ کردیا گیا، کیا صدر ایران ابراہیم رئیسی اور رفقا کا حادثہ اسرائیل پر حملے کی سزا اور آئندہ ایسی حرکات سے باز رکھنے کا پلان تو امریکا کا نہیں ہے؟ سانحے کے بعد مرگ بر امریکا کے نعرے بتاتے ہیں کہ ایرانی قوم اس کو امریکا کی چال سمجھتے ہیں۔ اس سانحہ ارتحال پر امریکا کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کروبی کا یہ بیان کہ صدر ابراہیم رئیسی ایران میں متعدد زیادتیوں کے ذمے دار تھے ان کے ہاتھ بہت سے لوگوں کے خون سے رنگے تھے وہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں میں بھی ملوث تھے کی الزام تراشی اور امریکا کی ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس اور مجالس قائمہ برائے امور خارجہ و دفاع کے رکن مائک والٹنر کا سوشل میڈیا پر لکھا یہ جملہ ’’شکر ہے جان چھوٹی، رئیسی پیشہ ور قاتل ہے اس نے صدر بننے سے پہلے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی، ایرانی حکومت اس کا الزام اسرائیل اور امریکا پر لگارہی ہے تا کہ دہشت گردی کا جواز پیدا کیا جائے۔ یہ دونوں ذمے داران کے بیانات یہ بتانے کو کافی نہیں کہ اس حادثے کو امریکا کی آشیرباد حاصل رہی ہے‘‘۔ امریکا نے ضیا الحق سانحے میں اپنا سفیر ہلاک کروایا تھا مگر اس سانحے میں اس کی نوبت یوں نہیں آئی کہ ہیلی کاپٹر کا پائلٹ جو پاسدارن انقلاب کا ہوا کرتا تبدیل ہو کر آرمی سے لیا گیا اور ضیا الحق کے سانحے کی طرح کچھ احباب ہیلی کاپٹر سے اتارے گئے۔