آپ اکثر اخبارات میں یہ خبریں پڑھتے رہتے ہوں گے ہندوستان میں فلاں مقام پر ایک میجر نے خودکشی کرلی ابھی دو روز پہلے بھی ایسی ہی ایک خبر نظر سے گزری۔
’’مودی سرکار کی پالیسیوں سے نالاں بھارتی فوجی اپنی جانیں لینے لگے اور خود کشیوں کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ 18مئی کو مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے میجر مبارک سنگھ پڈا نے خود کشی کی۔ اس نے جموں کشمیر کے علاقے اکھنور میں اپنے کمرے میں خود کو گولی مارکر خودکشی کی مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجی کی خودکشی کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی 16نومبر کو ضلع ادھم پور میں 38سالہ نائیک ہریش سنگھ نے گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ جنوری 2007 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں خودکشی کرنے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد 601 تک پہنچ چکی ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بھارتی سیکورٹی فورسز میں ذہنی تنائو اور ڈیپریشن سنگین حد تک بڑھ چکا ہے جو بعد میں خودکشیوں کا سبب بننے لگا ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں موجود بھارتی سیکورٹی فورسز کے نصف سے زائد اہلکار شدید ذہنی تنائو کا شکار ہیں اور دوسرے ممالک کے خلاف سازشیں کرنے اور طاقت کے نشے میں چور مودی سرکار اپنے سیکورٹی اہلکاروں کی مشکلات سے بے پروا ہے۔ حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی اگنی ویر اسکیم سے بھارتی نوجوان فوج میں شمولیت سے بھاگنے لگے۔ اس اسکیم سے نوجوان بھارتی فوج میں شامل ہونے کا جذبہ کھورہے ہیں‘‘۔
اس خبر میں خود کشی کا سبب ذہنی تنائو اور ڈیپریشن بتایا گیا ہے ایک بات ذہن میں رکھنے کی ہے خودکشی کرنے والے فوجیوں کی زیادہ تعداد سکھوں کی ہے ان دونوں نکات کو ذہن میں رکھ کر بات آگے بڑھاتے ہیں کہ کیا صرف ذہنی تنائو اور ڈیپریشن واحد سبب ہے یہ تو ہو سکتا ہے کہ کچھ تعداد خودکشی کرنے والوں کی ایسے ہی ہو جیسے خبر میں بتائی گئی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ان خودکشیوں کے پیچھے کہانیاں کچھ اور ہوتی ہیں۔
اب سے شاید دس بارہ برس قبل کی بات ہے میں ریموٹ سے چینل بدل رہا تھا کہ اچانک ایک چینل پر انگلی ازخود رک گئی مناظر ہی کچھ ایسے تھے۔ سین یہ تھا کہ ایک شخص بھاگ رہا ہے اور بھاگتے بھاگتے دستی بم پھینکتا ہوا جارہا تھا اس کے پیچھے ایک بھارتی فوجی اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہا تھا وہ کوئی انڈین چینل تھا بھارتی فوجی پاکستانی آتک وادی یعنی پاکستانی دہشت گرد کو پکڑنے کے لیے بھاگ رہا تھا ایک جگہ فوجی اسے پکڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ دہشت گرد بھی شدید زخمی ہوتا ہے۔ اس دہشت گرد کو اسپتال میں داخل کیا جاتا ہے فوجی اسپتال انتظامیہ کو فون کرتا ہے کہ یہ ایک دشمن ملک کا دہشت گرد ہے اس کا پہرہ سخت کیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بھاگ جائے۔ اس کے بعد وہ مقامی انتظامیہ کو فون کرتا ہے کہ اسپتال کی سیکورٹی سخت کردی جائے اس دہشت گرد کا جو نیٹ ورک ہے اس کے ساتھی اسے یہاں سے لے جانے کی جان توڑ کوشش کریں گے۔ چنانچہ سیکورٹی سخت کردی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ایک دن سفید گائون پہنے ایک ڈاکٹر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جو نرسنگ اسٹاف کا روپ دھارے ہوتے ہیں اسے دیکھنے کے بہانے آتے ہیں اور اسے اپنے ساتھ اسپتال کی گاڑی میں باہر لے جاتے ہیں۔ دوسرے سین میں وہ بھارتی میجر جس نے اس پاکستانی دہشت گرد کو پکڑا تھا فون پر مقامی انتظامیہ سخت برا بھلا کہہ رہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ تم لوگ بھی دشمنوں سے ملے ہوئے ہو۔ اس بھارتی میجر نے جب اس کو پکڑا تھا تو اس کی جیب سے وہ نقشہ بھی اسے ملا تھا جس میں ان مقامات کی نشاندہی تھی جہاں جہاں اسے بم بلاسٹ کرنا تھا۔ علاقے میں سیکورٹی مزید سخت کردی جاتی ہے اور بالآخر بھارتی فوج اس پاکستانی دہشت گرد کو پکڑنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
اب اس سے تفتیش کا مرحلہ شروع ہوتا ہے پہلے تو اس کے پورے نیٹ ورک کے حوالے سے معلومات حاصل کی جاتی ہے۔ وہ فر فر سب کچھ بتاتا جارہا ہے یا جو اسے کہا گیا ہوگا کہ یہ یہ بتانا ہے۔ تفتیش کی گاڑی وہاں پر آکر رک جاتی ہے جب اس سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہماری فوج میں تمہارا سہولت کار کون ہے۔ اب اس دہشت گرد کو پتا ہے کہ یہاں سچ سچ بتادیا تو میری اور اس فوجی آفیسر دونوں کی زندگی ختم ہوجائے گی وہ جب تک جھوٹی کہانیاں سناتا رہے گا زندہ رہے گا، حالانکہ اسے بڑے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں کہ نہ صرف تمہیں معاف کردیا جائے گا بلکہ انعامات سے بھی نوازا جائے گا۔ وہ جب کسی صورت نہیں بتاتا اور ہر قسم کا تشدد برداشت کرتا رہتا ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ تفتیشی آفیسر ایک بڑی سی قینچی لاتا ہے ایک دردناک چیخ سنائی دیتی ہے معلوم ہوا کہ اس کی چھوٹی انگلی آدھی کاٹ دی جاتی ہے۔ اس نے سوچا کہ اس طرح کٹ کٹ کر مرنے سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ گولی سے مرجائے وہ تفتیشی افسر کو بھارتی فوج کے سہولت کار کا نام بتا دیتا ہے۔
اب دوسرے سین میں اس بھاری فوجی آفیسر کو تفتیش کے مراحل سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اس سے بہت سارے سوالات کیے جاتے ہے کہ کب سے پاکستانی ایجنسیوں سے رابطے میں ہے اور اس نے کیا کیا معلومات اور اطلاعات دشمن ملک کو پہنچائی ہیں وہ سب کچھ ا گل دیتا ہے۔دہشت گرد کی کہانی تو ختم ہوجاتی ہے۔
اب اس فلم یا ڈرامے کا آخری منظر یہ ہے کہ اس بھارتی فوجی سہولت کار کے دونوں طرف دو پستول رکھی ہوتی ہے تفتیشی آفیسر اس سے کہہ رہا ہے کہ ایک طرف باہر کی ریوالور ہے اور دوسری طرف دیسی پستول ہے یہ تمہاری پسند ہے کہ جس پستول سے چاہو تم اپنے سر پر گولی مار کر خودکشی کرسکتے ہو۔ پھر وہ سمجھاتا ہے کہ اگر کورٹ مارشل کی طرف جائو گے تو جان تو تمہاری وہاں بھی نہیں بچ پائے گی۔ ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات سے محروم ہوجائو گے، خاندان کی بدنامی الگ سے ہوگی اور تمہاری اولادوں میں سے کسی کو فوج سمیت کسی سرکاری ادارے میں کسی قسم کی ملازمت بھی نہیں مل سکے گی اور اگر تم ہماری تجویز پر خودکشی کرلو گے تو تمام زندگی بیوہ کو پنشن ملے گی تمہارے بچے کو فوج میں ملازمت بھی مل جائے گی اور تمہارا خاندان بدنامی سے بھی بچ جائے گا، تھوڑی دیر بعد فائر کی آواز گونجتی ہے اور فلم ختم ہوجاتی ہے۔
اس ڈارمے سے معلوم ہوا کہ بھارتی فوج کی خودکشی کی جتنی خبریں آتی ہیں اس کے پیچھے کہانیاں کچھ ایسی ہی ہوتی ہیں جیسا کہ اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ اگر سب کا کورٹ مارشل کیا جائے گا تو خود بھارتی فوج کی بدنامی تو جو ہوگی وہ تو ہوگی پوری دنیا میں یہ تاثر جائے گا کہ انڈین فوج میں بغاوت کے جذبات فروغ پارہے ہیں اور اس سے فوج کا مورال بھی گر جائے گا۔